اب میں چاہتا ہوں کہ اسلامی معاشرت کے اصول اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی بنیادوں کے حوالے سے چند ایک احادیث آپ کو سنا دوں.پہلی حدیث حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک متفق علیہ روایت ہے‘جس میں رسول اللہ نے فرمایا : إِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہُ بَعْضًا‘ وَشَبَّکَ أَصَابِعَہُ (۱’’ مؤمن (دوسرے) مؤمن کے لیے عمارت کی مانندہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو تقویت دیتا ہے .اور آپ نے اپنی انگلیوں میں پنجہ ڈال کر بتلایا‘‘. دیواروں میں اینٹیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں اس طرح وہ ایک دوسرے کو مضبوط کرتی ہیں. دیواراگر اکیلی ہے‘اس کے ساتھ کوئی دیوار نہیں ہے تواس کو اس طرف سہارا دینا پڑ جائے گا.لیکن اگر چاروں طرف سے دیواریں آپس میں جڑی ہوئی ہیں تو یہ ایک دوسرے کے لیے سہارا ہیں. پھر یہ دیواریں چھت کو سہارا دے رہی ہیں.اسی طریقے سے اہل ایمان خواہ مختلف علاقوں اورقبائل سے تعلق رکھتے ہوں ‘ لیکن وہ ایسے ہی ہیں جیسے ایک عمارت.لہٰذا وہ ایک دوسرے کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بنیں گے.

دوسری حدیث بھی متفق علیہ روایت ہے. حضرت نعمان بن بشیرhسے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: 

مَثَلُ الْمُؤْمِنِینَ فِی تَوَادِّہِمْ وَتَرَاحُمِہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ‘ إِذَا اشْتَکَی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّہَرِ وَالْحُمَّی 
(۲
’’مؤمن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت ‘ اتحاد اور شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی ایک عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور وہ بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے.‘‘

اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث اور بھی ہے.رسول اللہ نے فرمایا: 

الْمُسْلِمُونَ کَرَجُلٍ وَاحِدٍ إِنْ اشْتَکَی عَیْنُہُ اشْتَکَی کُلُّہُ‘ وَإِنْ اشْتَکَی رَأْسُہُ اشْتَکَی کُلُّہُ 
(۳(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الصلاۃ‘ باب تشبیک الاصابع فی المسجد وغیرہ. وصحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم وتعاضدہم.
(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الادب‘ باب رحمۃ الناس والبہائم. وصحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم وتعاضدہم.

(۳) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم وتعاضدہم. 
’’مسلمان بندے ایک فردِ واحد کی طرح ہیں‘اگر آدمی کی آنکھ دکھتی ہے تو اس کا سارا جسم دکھنے لگ جاتا ہے اور اگر اس کے سر میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے.‘‘

ایک دوسرے سے مودت اور ایک دوسرے پر رحم کرنے کے حوالے سے اس سے جامع کوئی مثال ممکن نہیں ہے کہ اگرکسی ایک عضو میں کوئی تکلیف ہے‘مثلاًآنکھ میں چبھن ہو رہی ہے‘ تو باقی جسم یہ نہیں کہے گا کہ آنکھ کو رہنے دو‘میں تو سوؤں گا‘بلکہ ایک آنکھ نہیں‘سارا جسم جاگتا ہے.اسی طرح بخار ہوتا ہے تو پورے جسم کو ہوتا ہے. کسی ایک عضو کی انفیکشن کی وجہ سے سارا جسم بخار میں مبتلا ہوتا ہے. بالکل اسی طرح اہل ایمان کا ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ جسم کی مانند ہے کہ ایک کو تکلیف ہوگی تو دوسرا بھی اس تکلیف کو محسوس کرے گا.
تیسری حدیث بھی متفق علیہ ہے جو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ‘وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: 

الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ‘ لَا یَظْلِمُہُ وَلَا یُسْلِمُہُ ‘ وَمَنْ کَانَ فِی حَاجَۃِ أَخِیہِ کَانَ اللّٰہُ فِی حَاجَتِہٖ‘ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَۃً فَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِنْ کُرُبَاتِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ‘ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ 
(۱

’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘نہ تو اس پر ظلم کرے اور نہ اس کو ظالم کے حوالے کرے (کہ وہ اس پر ظلم کرے) .اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی کی فکر میں ہوتا ہے تواللہ تعالیٰ اُس کی حاجت روائی کرتا ہے. اور جو شخص کسی مسلمان سے اس کی مصیبت کو دور کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت اس سے دور کرے گا. اور جس نے کسی مسلمان کی ستر پوشی کی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی کرے گا.‘‘

یعنی جو شخص اپنے کسی مؤمن بھائی کی کسی تکلیف یا دکھ درد کو اس دنیا کے اندر رفع کرتا ہے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب المظالم‘باب لا یظلم المسلم المسلم ولایسلمہ. وصحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تحریم الظلم. تواللہ تعالیٰ اس کے آخرت کے دکھوں میں سے کمی کردیتا ہے. آپ پر سختی آئی ہے اور کسی نے آپ کی مدد کی ہے تواللہ عزوجل اس کی مدد کرے گا اور قیامت کی سختیوں میں سے اگر وہکسی سختی کا حق دار بنا ہوگا تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بچا لے گا. 

مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا کا لفظی ترجمہ ہوگا : ’’جس نے کسی مسلمان کو لباس پہنایا.‘‘ اور مسلمان کو لباس پہنانے (سترپوشی) کے دو مفہوم ہیں:(۱) اپنے کسی مسلمان بھائی کے عیب کو چھپانا‘اور (۲) کسی کے پاس جسم چھپانے کے لیے لباس نہیں تو اسے لباس دے دینا.جو بھی یہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کو بھی لوگوں سے چھپائے گا اور قیامت کے دن اسے لباس بھی عطا فرمائے گا.

آخری حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘کہ رسول اللہ نے فرمایا: 
اُنْصُرْ أَخَاکَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا 
فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَنْصُرُہُ إِذَا کَانَ مَظْلُومًا أَفَرَأَیْتَ إِذَا کَانَ ظَالِمًا کَیْفَ أَنْصُرُہُ؟ قَالَ: تَحْجُزُہُ أَوْ تَمْنَعُہُ مِنْ الظُّلْمِ فَإِنَّ ذٰلِکَ نَصْرُہُ (۱

’’اپنے ظالم یا مظلوم بھائی کی مدد کرو‘‘. ایک شخص نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول !میں مظلوم کی مدد توکرتا ہوں ‘ فرمائیے کہ ظالم کی مدد کس طرح کروں؟ آپؐ نے فرمایا:’’ تو اسے ظلم کرنے سے روک دے‘ یہی اس کی مدد ہے.‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی معاشرت کے اصولوں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی بنیادوں کو صحیح معنوں میں اپنانے اور ان کے مطابق ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی توفیق عطا فرمائے‘جہاں حریت‘اخوت اور مساوات کا دور دورہ ہو.

آمین یا ربّ العالمین! 
اَقُوْلُ قَوْلِیْ ھٰذَا وَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ والمُسلماتoo (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاکراہ‘ باب یمین الرجل لصاحبہ انہ اخوہ اذا خاف علیہ القتل.