اسی کا نقشہ سورۃ الحجرات کی آیت ۱۱ اور ۱۲ میں کھینچاگیا ہے.سورۃ الحجرات کی آیت۱۰ پچھلی مرتبہ میں نے تلاوت کی تھی‘جس میں فرمایا گیا : اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ ’’مؤمن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘اور بھائی بندی کا بنیادی اور اولین تقاضا یہ ہے کہ اگر تمہارے دو بھائیوں میں اختلاف ہو جائے فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمۡ ’’تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح اور اصلاح کرا دیا کرو‘‘ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ’’اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘‘. ایسے موقع پر غیرجانبداری کی روش صحیح نہیں ہے کہ میں کیا کروں‘ اپنا معاملہ ہے خود سے حل کریں. اگرمیں ایک کی بات کروں گا تودوسرا ناراض ہو جائے گااور دوسرے کوحق پر قرار دوں گا تو پہلا ناراض ہو جائے گا‘لہٰذامیں اس مسئلہ میں پڑتاہی نہیں ہوں. ہرگز نہیں‘ یہ بہت غلط رویہ ہے. اہل ایمان کا فرض ہے کہ مسلمان بھائیوں میں اگر کوئی اختلاف ہو گیا ہے ‘کوئی چپقلش ہو گئی ہے تو اسے رفع کریں اور مصالحت کرائیں‘ صلح کرائیں. 
تمسخراڑانے کی ممانعت:اس کے بعد آیت ۱۱ اور ۱۲ میں’’لائے نہی‘‘ کے ساتھ چھ احکام آئے ہیں.پہلی بات یہ فرمائی گئی : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ ’’اے اہل ایمان! تم میں سے کچھ مرد ‘ دوسرے مردوں کا تمسخر نہ کیا کریں‘ ہو سکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے) اُن (مذاق اڑانے والوں) سے(اللہ کی نگاہ میں) بہتر ہوں‘‘. آپ نے کسی کو اس کے جسمانی عیب پر مذاق کا نشانہ بنایا‘ لیکن کیا پتا اس کے دل میں آپ سے کہیں زیادہ ایمان ہو اوروہ اللہ کی نگاہ میں آپ سے زیادہ محبوب ہو‘لہٰذا کسی کا مذاق نہ اڑایا کرو.چونکہ یہ مرض خواتین میں مردوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے لہٰذا خصوصی طور پر عورتوں کو مخاطب کرکے اس سے منع کیا گیا: وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ ’’اور نہ کچھ عورتیں دوسری عورتوں کامذاق اڑائیں‘ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں(اللہ کے نزدیک)‘‘.قرآن حکیم میں عام طور پر مذکر کے صیغے میں ایک بات آتی ہے اور وہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہو تی ہے‘ لیکن جہاں خاص عورتوں کا معاملہ ہو تو وہاں بات کو دہرا کر لایا جاتا ہے. ایک دوسرے پر فقرے چست کرنے اور مذاق اڑانے کی عادت چونکہ عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے اس لیے یہاں خاص طور پر عورتوں کا ذکر الگ سے بھی کیا گیا ہے.

عیب چینی اور برے نام رکھنے کی ممانعت: دوسری بات یہ فرمائی گئی: وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ’’اور ایک دوسرے کو عیب نہ لگایا کرو‘‘.یعنی بہتان تراشی اور عیب چینی نہ کیا کرو. تیسری بات یہ فرمائی : وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ ’’اور ایک دوسرے کے چڑانے والے نام نہ رکھ لیا کرو‘‘. یہ ایک مذموم اور ناپسندیدہ حرکت ہے کہ آپ کسی فرد کسی فرد یا کسی گروہ کے اصل نام کو چھوڑ کر اس کے لیے کوئی ایسا نام رکھ لیں جو اسے پسند نہ ہو.فرض کیجیے کہ جو لوگ اہلحدیث یا سلفی کہلواتے ہیں آپ نے ان کو وہابی کہہ دیا تو یہ چیز ان کے لیے تکلیف دہ ہے. اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ ’’ایمان کے بعد تو یہ برے نام بھی برے ہیں‘‘.عمل تو دور کی بات ہے‘یہ جو تم زبانی کلامی بات کر دیتے ہو اس کی بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑی شدید گرفت ہوگی. ہم وہ حدیث پڑھ چکے ہیں جس میں حضور نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے کہاتھا: ثَـکِلَتْکَ اُمُّکَ یَا مُعَاذُ! وَھَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ اَوْ قَالَ عَلٰی مَنَاخِرِھِمْ‘ اِلاَّ حَصَائِدُ اَلْسِنَتِھِمْ ’’اے معاذ! تجھے تیری ماں گم پائے‘ لوگوں کو ان کے چہروں (یانتھنوں) کے بل جہنم میں ان کی زبانوں کی کھیتیاں ہی تو لے جائیں گی‘‘.زبان بے لگام ہوتی ہے اور زبان سے کوئی لفظ نکالنے میں کوئی طاقت نہیں لگتی‘کچھ خرچ نہیں آتا‘جو چاہا‘جب چاہابک دیا ‘لیکن ہر ہر لفظ جو انسان کے منہ سے نکلتا ہے وہ یا تو جنت میں جا کے پودا بن جائے گا یا جہنم کا کوئی جھاڑ جھنکاڑ بنے گا ‘جو اسے آخرت میں جا کے کاٹنا پڑے گا.لہٰذا لوگوں کی عیب چینی اور ان کے برے نام رکھنے سے باز رہنا چاہیے.

سوئے ظن کی ممانعت: آیت ۱۲ میں چوتھی بات کا تذکرہ ہے. فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ ’’اے اہل ایمان! زیادہ بدگمانی سے بچو‘ اس لیے کہ بعض گمان (اللہ کی نگاہ میں)گناہ بن جاتے ہیں‘‘. بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے کسی کے بارے میں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس میں یہ خرابی ہے . اگر تو کوئی واقعہ ہو گیا ہے‘ کوئی ثبوت ہے ‘ تب تو ٹھیک ہے کہ آپ کوئی رائے قائم کریں. ایسے ہی بغیر کسی ثبوت اور واقعے کے آپ نے سوئے ظن قائم کر لیا تو یہ بہت بڑا گناہ بن جاتا ہے .

عیب تلاش کرنے کی ممانعت: پانچویں بات یہ فرمائی: وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا ’’اور ایک دوسرے کے حالات کی ٹوہ میں نہ رہا کرو‘‘. کہا جاتا ہے کہ مکھی گندگی پر ہی بیٹھے گی‘ اس لیے کہ وہ اس کی فطرت ہے.اسی طرح کچھ لوگ کھوج کرید میں رہتے ہیں کہ اس گھر میں کیا ہو رہا ہے‘ وہاں کوئی دنگا فساد ہے یا نہیں؟ ذرا سی کوئی بات اگر مل گئی تو لے اڑے. یہ ان کا ذوق ہوتا ہے .تو اس سے روکا گیاہے‘ بلکہ آج کی زیر مطالعہ حدیث میں تو یہاں تک آیاہے کہ اگر تمہارے کسی مسلمان بھائی کا کوئی عیب تمہارے علم میں خودبخود آجائے تو اسے بیان کرنا تو دورکی بات ہے‘اس کے اوپر پردہ ڈالو.اس کے برعکس خود تجسس کر کے لوگوں کے عیوب تلاش کرنا یہ تو بہت بری بات ہے.

غیبت کی ممانعت: چھٹی بات سورۃ الحجرات کی آیت میں یہ فرمائی گئی: وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ ’’اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو‘‘. کسی مسلمان بھائی کے پیچھے اس کی کوئی برائی بیان نہ کرو. اس حوالے سے حضور سے پوچھا گیا کہ اگر اس میں وہ برائی موجود ہوتو؟اس کے جواب میں آپنے فرمایا : إِنْ کَانَ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَہُ وَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِیہِ فَقَدْ بَہَتَّہُ (۱’’ اگر وہ عیب اس میں ہے جو تم کہتے ہو تبھی تو وہ غیبت ہے ‘اور اگر اس میں وہ عیب نہ ہو توپھر تم نے اس پر بہتان لگایا ہے‘‘. ایک شخص کے اندر اگر کوئی عیب ہے یا اس نے کوئی برائی کی ہے تواس کے پیٹھ پیچھے اس کا ذکر مت (۱) صحیح مسلم‘کتاب البروالصلۃ والآداب‘ باب تحریم الغیبۃ. کرو‘ہاں اس کے سامنے اس انداز سے بات کرو تاکہ وہ اپنی اصلاح کرے. پیٹھ پیچھے کرو گے تو یہ غیبت ہے اور اس کو اتنا برا کہا گیا کہ: اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ ’’کیا تم میں سے کوئی شخص اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا ؟یہ بات تو تمہیں بہت بری لگے گی ‘‘. یعنی کسی مسلمان بھائی کی غیبت کرنا اخلاقی سطح پر وہی فعل ہے جیسے کسی مسلمان بھائی کا گوشت کھانا. اس کے اندر مناسبت یہ ہے کہ مردہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا‘ آپ جہاں سے چاہیں اس کی بوٹی اُڑالیں.ا سی طرح جو شخص موجود نہیں ہے تووہ بھی اپنا دفاع نہیں کر سکتا. وہ موجود ہوتا تو بتاتا ‘نہیں بھئی ایسا نہیں ہے‘ بلکہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے اوریہ بات میں نے نہیں کی ہے.اگر سامنے ہوگا تو وہ کچھ نہ کچھ دفاع توکر سکتا ہے‘لیکن جب موجود ہی نہیں تو وہ اپنی عزت کا دفاع نہیں کرسکتا ‘جیسے مردہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا.