میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ قرآن مجید کا یہ انداز ہے کہ بالعموم پہلے ایک بات کا منفی پہلو بیان کیا جاتا ہے اور پھر مثبت!کلمہ ٔتوحید کی ترتیب بھی یہی ہے کہ پہلے نفی اور پھر اثبات‘ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ ’’نہیں ہے کوئی بھی معبود سوائے اللہ کے‘‘ .اسی طرح سورۃ البقرۃ میں فرمایا گیا: فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ (آیت ۲۵۶’تو جو کوئی بھی طاغوت کا انکار کرے اور پھر اللہ پر ایمان لائے تو اُس نے بہت مضبوط حلقہ تھام لیا‘‘.یعنی پہلے طاغوت کا کفرکرنا اور اس سے بغاوت کرنا لازمی ہے اور پھر اللہ پر ایمان کا مرحلہ آتا ہے.

طاغوت سے مراد اللہ کے سرکش اور اللہ کے باغی ہیں جو اللہ کے بجائے اپنے آپ کو حاکم سمجھ بیٹھیں. چاہے وہ حاکم فرعون اور نمرود کی شکل میں ہو یا آج کے جمہوری دور میں عوام کی شکل میں.عوام چند لوگوں کومنتخب کرکے اپنے سروں پر اس انداز سے بٹھا لیتے ہیں کہ اب وہ جیسے چاہیں قانون بنائیں‘ان کو مکمل آزادی ہے.چاہے تو شراب کو جائز قرار دے دیں‘ہم جنس پرستی (homosexuality) کو جائز قرار دے دیں‘ ہم جنس پرست شادی کے جواز کا فتویٰ دے دیں کہ ایک مردشوہر ہے اوردوسرا مرد بیوی ہے یا ایک عورت شوہر ہے اور ایک عورت بیوی ہے.قانون کی نگاہ میں تویہ جائز قرار دے دیا گیا‘حالانکہ یہ فطر ت سے بغاوت کا معاملہ ہے. اللہ نے عورت اور مرد کو ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے. ان کی تخلیق‘ ان کی ساخت اور ان کی نفسیات ایک دوسرے سے بالکل جدا ہے. درحقیقت یہ سب طاغوت ہیں.اسی طرح میرا اور آپ کا نفس امارہ بھی طاغوت ہے ‘اس لیے کہ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (یوسف:۵۳’’یقینا نفس تو برائی ہی کا حکم دیتا ہے‘‘.ہمارے اندر کی حیوانیت کو حلال حرام سے کوئی غرض نہیں ہے‘زبان کو چٹخارے چاہئیں چاہے حلال سے ہوں یا حرام سے‘ہمیں بس دولت چاہیے چاہے وہ حلال ذرائع سے آئے یا حرام سے.نفس کہہ رہا ہے کہ رشوت پیش ہو رہی ہے تو لے لو ‘ اس وقت تمہیں پیسوں کی بڑی ضرورت ہے‘ تمہارے بچے کی فیس ابھی نہیں گئی ہے.پھریہ بھی نفس کا بہکاوا ہے کہ رشوت تو سبھی لیتے ہیں کوئی تم اکیلے تو نہیں لے رہے. یہ سارے حیلے نفس سکھاتا ہے ‘اسی لیے ہمارا نفس بھی طاغوت کے زمرے میں آتا ہے .

جیسا کہ میں نے کہا کہ جو بھی اللہ کاباغی ہے وہ درحقیقت طاغوت ہے. آج کے دور میں سیکولر ریاست روئے زمین پر سب سے بڑی طاغوت ہے. سیکولر کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا کسی مذہب سے ‘ کسی آسمانی ہدایت سے‘ کسی آسمانی شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ یہ صرف اور صرف انفرادی معاملہ ہے . آپ مسلمان ہیں توانفرادی طور سے شریعت محمدیؐ پر عمل کر سکتے ہیں‘اس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے. آپ نماز پڑھیں‘ روزے رکھیں‘ قرآن کی تلاوت کریں! اسی طرح ہندو منوسمرتی اپنے عقائد و رسوم کے تحت اپنی انفرادی زندگی گزار سکتے ہیں‘ لیکن اجتماعی زندگی میں کسی مذہب کا کوئی تعلق نہیں.چنانچہ آج کے دور میں سیکولرریاست سب سے بڑاطاغوت ہے.