مسلمان بھائی کی سختی دور کرکے آسانی پیدا کرنا

اب ہم آج کی حدیث کی طرف آتے ہیں.اس کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے اوریہ صحیح مسلم میں موجود ہے . حضور ارشادفرماتے ہیں: مَنْ نَّفَّسَ َ عَنْ مُؤْمِنٍ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ الدُّنْیَا نَفَّسَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ’’جس شخص نے کسی مؤمن کی دنیا کی سختیوں (اور دشواریوں)میں سے کسی سختی(یا دشواری) کو دور کیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی سختیوں اور دشواریوں میں سے کمی کرے گا‘‘.دنیا میںاہل ایمان کے ساتھ اگر حسن سلوک کرو گے تو اس کا اجر اللہ کے ہاں ملے گا اور اللہ تعالیٰ قیامت کی بڑی شدید سختیوں کو تم سے دور کر دے گا. قیامت کی سختیوں کے حوالے سے روایتی طور پر کہا جاتا ہے کہ لوگ اپنے پسینے میں گردنوں تک غرق ہوں گے اور سورج سوا نیزے پر ہو گا. یہ چیزیں صرف سمجھانے کے لیے ہیں‘ ورنہ اس دن کی سختی کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ ان سختیوں کواپنے اُس بندے کے لیے آسان کر دے گا جس نے دنیا میں کسی مسلمان بھائی کی کسی سختی‘ تنگی اور مشکل کو رفع کیا ہو گا. 

دوسری بات رسول اللہ نے یہ فرمائی: وَمَنْ یَّسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ ‘ یَسَّرَ اللّٰہُ عَلَیْہِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ’’اورجو شخص کسی تنگدست پر آسانی کرے گا‘اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے لیے آسانی فرمائے گا ‘‘.یعنی جس نے کسی ایسے شخص پر آسانی پیدا کی جو کسی مشکل میں ‘ تنگی میں یامصیبت میں ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس دنیا میں بھی اور پھر آخرت میں بھی آسانیاںپیدا فرمادے گا.کوئی مسلمان تکلیف میں ہے اور آپ اس کی تکلیف کے اندر کمی کرکے اس کے لیے کوئی آسانی کا راستہ پیدا کر دیں‘مثلاًآپ نے کسی کو دوسال کی مدت کے لیے قرض دیا تھا‘لیکن دوسال کے بعد وہ قرض کی ادائیگی کی پوزیشن میں نہیں ہے تب آ پ اس کے سر پر سوارہونے کے بجائے اسے مزید مہلت دے دیں تویہ بہت اجر و ثواب کا باعث ہے. قرآن مجید میں جہاں سود کی حرمت کا حکم آیاہے‘وہیں یہ بھی آیا ہے کہ اگر تمہارا مقروض قرض لوٹانے کی حالت میں نہیں ہے تو اس کے لیے مہلت بڑھا دو ‘اور اگر اس کی تنگ دستی کو دیکھتے ہوئے قرض معاف ہی کر دو تو یہ سب سے بہتر ہے. یہ تمہارا مسلمان بھائی ہے اور اس نے اپنی مجبوری میں تم سے قرض لیا تھا.پھر ظاہر بات ہے کہ تم نے بھی اپنی اضافی دولت سے ہی اسے قرض دیا تھا ‘اب اگراس قرض کو صدقہ کرتے ہوئے معاف کردو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے بدلے بہت دے گا.

انسان کے پاس جواضافی دولت ہے‘اس کے بارے میں قرآن مجید میں تو یہ اصول بیان کیا گیا ہے: یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ (البقرۃ:۲۱۹’’(اے نبی ) یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم (اللہ کی راہ میں )کتنا خرچ کریں؟آپ انہیں بتا دیجیے کہ جو بھی تمہاری ضرورت سے زائد ہے (اسے صدقہ کر دو)‘‘.اس حوالے سے یادرکھیے کہ یہ روحانی تقاضا ہے‘جبکہ قانونی تقاضا اس سے مختلف ہے کہ آپ ضرورت سے زائد اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت میں موجود اسلامی معیشت کے روحانی تقاضے کو قانونی سمجھ لیااور یہ رائے قائم کرلی کہ کسی بھی مقدار میںسونا چاندی اپنے پاس رکھنامطلقاً حرام ہے.ان میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ جیسے صحابی بھی تھے .ان کے اندر چونکہ زہد انتہائی درجے کا تھا تو اس کا یہ مظاہرہ ہوا بہرحال حقیقت یہی ہے کہ آپ کے پاس جو دولت ہے‘اس میں سے آپ نے زکوٰۃ ادا کر دی ہے تو باقی مال آپ کا ہے.آپ اس کو اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اور وہ آپ کی اولاد کو منتقل ہو سکتا ہے. اگر اپنے پاس کچھ رکھنا ہی نہیں ہے تو وراثت کا قانون آخر کیسے لاگو ہو گا؟

اسلامی نظامِ معیشت پر میرا ایک کتابچہ ہے: ’’اسلام کا معاشی نظام‘‘جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلام میں معیشت کے دو نظام ہیں‘ایک ہے روحانی اور احسانی سطح پر اور ایک ہے قانونی سطح پر. قانونی سطح پر یہ ہے کہ آپ نے حلال ذرائع سے مال کمایااور وہ مال نصاب سے آگے بڑھ گیا اورآپ نے اس میں سے زکوٰۃ دے دی تو اب باقی مال آپ کا ہے اور قانونی طور پر آپ اس کے مالک ہیں. جبکہ روحانی سطح پر یہ ہے کہ جو مال باقی بچ گیا ہے اس کو اللہ کے راستے میں دے دو.چنانچہ زیرمطالعہ حدیث میں رسول اللہ نے یہ تعلیم دی کہ اگر تم اپنے کسی تنگ دست بھائی کے لیے آسانی پیدا کرو گے تو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں تمہارے لیے آسانیاں پیدا فرمائے گا.