چوتھی بات رسول اللہ نے یہ فرمائی: وَاللّٰہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ اَخِیْہِ آپ اندازہ کیجیے کہ کس قدر پیاری تعلیمات ہیں اور کس قدر عمدہ اندازِ بیان اور جامع الفاظ ہیں ’’اور اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے ‘‘.آپ اپنے بھائی کے کام میں وقت لگا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے کام میںلگ جائے گا اورآپ کی ضرورتیں پوری کرے گا. اس سے اونچا درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص مظلوم ہے اور وہ آپ سے آ کر کہتا ہے کہ فلاں حاکم کے پاس جا کر میری بات بتایئے‘ میری بات کوئی نہیں سنرہا. اگر اس کی بات سچ ہے اور آپ جا کر اس کی سفارش کرتے ہیں تو یہ شفاعت حسنہ کہلاتی ہے اور اس کا بڑا اجر و ثواب ہے.اب آپ اس کی مدد کے لیے جارہے ہیں تو ظاہری بات ہے کہ آپ کا وقت بھی لگے گا تو اتنے عرصے تک آپ کے سارے کام اللہ سنبھالے گا. 

اس حوالے سے ایک واقعہ بہت مشہور ہے‘مکہ میں ایک تاجر آیا اور ابوجہل نے اس سے بہت سا مال واسباب خریدا ‘ لیکن پیسے نہیں دیے. اب وہ بیچارہ لوگوں سے فریاد کرتا پھر رہا ہے‘لیکن کوئی اس کی مدد کے لیے تیار نہیں ہے.ایک جگہ پر بہت سے سردار بیٹھے ہوئے تھے‘وہ تاجر ان کے پاس گیا اور ان سے فریاد کی کہ ابوجہل میری رقم نہیں دے رہا ‘تو انہیں شرارت سوجھی.انہوں نے کہا وہ شخص جو وہاں نماز پڑھ رہا ہے ‘ اس کے پاس جاؤ‘ وہ تمہارا مال دلوا سکتا ہے.وہ شخص نبی آخر الزماں حضرت محمد تھے.تاجر نے حضوراکرم کے پاس جا کرساری بات بتائی اور مدد کی درخواست کی تو آپؐ فوراً اس کے ساتھ چل پڑے.ابوجہل حضور کا بدترین دشمن تھا ‘اس کے باوجود آپؐ اُس تاجر کے ساتھ ابوجہل کے گھر گئے اور دروازے پر جا کر دستک دی. ابوجہل باہر آیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس کا مال ادا کرو. وہ فوراً اندر گیا اور خاموشی کے ساتھ جا کے مال لے آیا یہ رعب اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم کو دیا تھا. آپ خود فرماتے ہیں: بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ (۱’’میں جوامع الکلم کے ساتھ بھیجا گیا ہوں اور رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے ‘‘ ظاہر بات ہے کہ آپؐ کے چہرۂ مبارک کا رعب جب ابوجہل کے اوپر پڑا تو اس نے بلا چون و چرا اس کا مال لا کے دے دیا. دیکھئے آپ ایک انجان بندے کی مدد کے لیے اس کے ساتھ چلے اور اس کے پاس جا رہے ہیں جو آپؐ کابدترین دشمن ہے.صرف اس لیے کہ کم سے کم اس مظلوم کی کوئی داد رسی ہو جائے.