زیر مطالعہ حدیث کو بنیادی طور پر دوحصوں میں تقسم کیا جاسکتا ہے‘پہلے حصہ میں حسن معاشرت کے اصولوں کوبیان کیا گیا‘جس کا مطالعہ ہم کرچکے ہیں جبکہ دوسرے حصہ میں طلب ِعلم اور درس وتدریس کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے الحمد للہ‘میں نے اس کام میں پچاس برس سے زیادہ کا عرصہ لگایا ہے.میں جب میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا (۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۴ء تک) تو اس زمانے میں بھی میرا درسِ قرآن ہوتا تھا اور وہ پسند کیا جاتا تھا. میڈیکل کی تعلیم کے ساتھ قرآن سے بھی مناسبت اللہ نے عطا فرما دی تھی‘ لیکن اس کے بعد پھر میری زندگی کا اصل کام ہی یہ رہا: قرآن پڑھناپڑھانا ‘ سمجھنا سمجھانا‘ سیکھنا (۱) صحیح البخاری‘کتاب الجہاد‘باب قول النبی نصرت بالرعب مسیرۃ شہر. سکھانا اور قرآن کی تعلیم کو عام کرنا اور لوگوں تک پہنچانا.اللہ کا شکر ہے کہ بہت سے نوجوان ایسے تیار ہو گئے ہیں جو اسی انداز میں اب درس دے رہے ہیں اورقرآنی تعلیمات کو عام کرنے کا کام کر رہے ہیں. چراغ سے چراغ روشن ہوتا ہے ‘ورنہ ایک اکیلے آدمی سے کیا ہو گا.میرے اس کام کو آگے لے کر چلنے والے اب بہت سے ہیں‘ گویا میری محنت پھل لا رہی ہے.

طلب علم اور اس کی فضیلت کے حوالے سے یہ حدیث بہت اہم ہے. چنانچہ رسول اللہ  نے اس بارے میں فرمایا: وَمَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَلْتَمِسُ فِیْہِ عِلْمًا… ’’جس شخص نے حصولِ علم کے لیے کوئی راستہ طے کرنا شروع کیا…‘‘ آپ کو معلوم ہے کہ جب احادیث جمع کی گئی ہیں تو اس کے لیے محدثین نے دور دراز کے سفر کیے. ایسا بھی ہوا کہ حدیث جمع کرنے والے صاحب کو معلوم ہوا کہ فلاں شہر مثلاً بصرہ یا بغداد میں ایک صاحب موجود ہیں جو اس حدیث کی روایت ایسی سند سے کرتے ہیں جس میں راویوں کی تعداد کم ہے تووہ لمبا سفر کر کے گئے اورجا کر کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ حضور کی یہ حدیث اس سند سے روایت کرتے ہیں؟انہوں نے اثبات میں جواب دیا:جی ہاں‘ یہ حدیث میں اس طرح روایت کرتا ہوں. بس وہ حدیث سنی اور فوراً واپس آگئے اور کہا کہ میں صرف اس مقصد کے لیے آیا تھا اور اس مقصد میں کسی اور چیز کو میں شامل نہیں کرنا چاہتا.

اسی طرح بعض لوگ مراکز علمی کی طرف سفر کرتے تھے.جیسے مشہور واقعہ ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ کو ان کی والدہ نے حصولِ علم کے لیے روانہ کیا تو کچھ اشرفیاں ان کی واسکٹ کے اندر سی دی تھیں کہ وقت ِ ضرورت ان کے کام آئیں گی. راستے میں ڈاکوئوں نے ڈاکہ ڈالا. ڈاکوؤں کا سردار ہر ایک سے پوچھتا تھا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟سب کہتے کہ کچھ نہیں ہے‘ لیکن جب تلاشی ہوتی تھی تو کچھ نہ کچھ نکل آتا تھا. اس نوجوان سے پوچھا گیا کہ تمہارے پاس کیا ہے ؟تواس نے کہامیرے پاس چالیس اشرفیاں ہیں. سردار نے کہا:کہاں ہیں‘ہمیں تو کہیں نظر نہیں آئیں. انہوں نے کہا کہ میری واسکٹ کے اندر سلی ہوئی ہیں. انہوں نے کھول کے دیکھا توواقعی وہاں چالیس اشرفیاں تھیں. اس کا اتنا اثر ہوا کہ ڈاکوئوں کا سارا قافلہ تائب ہو گیا. وہ اشرفیاںبھی انہیں واپس کیں اورباقی بھی جن کا مال لوٹا تھا‘ وہ واپس کیا. پھر ان کی زندگی نیکی کے حصول میںلگ گئی. معلوم ہوا کہ علم کے حصول کے لیے سفر کرنے میں یقینا خیرہوتی ہے .

رسول اللہ نے فرمایا: مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَلْتَمِسُ فِیْہِ عِلْمًا سَھَّلَ اللّٰہُ لَـہٗ بِہٖ طَرِیْقًا اِلَی الْجَنَّۃِ ’’جوشخص حصولِ علم کے لیے کوئی سفر اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بدولت اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتاہے‘‘. طلب علم کے لیے سفر گویا جنت کی طرف سفر ہے.غور کیجیے کہ یہاں کون سا علم مراد ہے . ایک علم تو وہ ہے جسے سیکھنے کے لیے ہم امریکہ یا کسی اور ملک جاتے ہیں .مثلاً فلاں انجینئرنگ پڑھنے جا رہے ہیں‘فلاں کورس کرنے جارہے ہیں‘پی ایچ ڈی یا ایم بی بی ایس کرنے جارہے ہیں.ان کے بارے میں جان لیجیے کہ یہ علم نہیں‘ فنون ہیں. جیسے ایک موچی جوتیاں گانٹھ کر پیسے کما رہا ہے تو جوتیاں گانٹھنا ایک فن ہے ‘اس لیے کہ ہر شخص جوتیاں نہیں گانٹھ سکتا. اسی طرح بڑھئی کے پاس ایک فن ہے اوروہ اپنے فن کو استعمال میں لا کر لکڑیوں سے مختلف چیزیں بناتا ہے.یہی معاملہ ایک بڑے سرجن کا ہے کہ وہ بھی جسم کو چیرتا ہے‘ اس میں سے کوئی غلط چیز نکال کر پھر سی دیتا ہے.چنانچہ ڈاکٹری‘ انجینئرنگ وغیرہ یہ علوم نہیں‘فنون ہیں.اصل علم تو علم ہدایت ہے جواللہ کی کتاب اور رسول اللہ کی سنت سے حاصل ہوتا ہے. چنانچہ رسول اللہ کے اس فرمان کا مصداق وہ شخص ہے جو علم ہدایت کے حصول کے لیے سفر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سفر کی بدولت اس کے لیے جنت کا سفر آسان کردیتا ہے.