تلاوتِ قرآن اور درس وتدریس کی فضیلت

آگے سنیے‘رسول اللہ نے فرمایا: وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُوْنَہٗ بَیْنَھُمْ… ’’اور کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوں اللہ کی کتاب کی تلاوت کرنے کے لیے اور آپس میں ایک دوسرے کو درس دینے کے لیے…‘‘ایک تو ہمارا (یک طرفہ) درس ہوتا ہے ‘یہ تھوڑا لمبا ہوتا ہے ‘اس لیے کہ اس میں آیت کے ہر ہر لفظ کے بارے میں بتانا پڑتا ہے کہ اس کییہ معانی ہیں‘ اس کی یہ ترتیب ہے‘ یہ ترجمہ ہے اور پھر اس کا مفہوم یہ ہے. یہاں لفظ ’’تدارس‘‘ آیا ہے. تدارس کا عمل دو طرفہ ہوتا ہے. یعنی آپ ایک سٹڈی سرکل بنا کر بیٹھ جائیں. ایک آیت پڑھی گئی تو ہر ایک سے باری باری پوچھا گیا کہ آپ نے اس سے کیا سمجھا؟ اس طرح سب نے جو سمجھا وہ باہمی تبادلہ کر دیا.یہ ایک بہت اچھی روایت ہے اور میں نے دسمبر۱۹۷۰ء میں انگلینڈ میں یہ دیکھا تھا.پاکستانی لڑکوں کاہاسٹل تھا‘وہاں یہ ہوتا تھا کہ جمعہ کے بعد لڑکے بیٹھتے تھے لڑکے بھی وہ تھے کہ کوئی پی ایچ ڈی کر چکے تھے‘ کوئی کر رہے تھے‘کوئی ایم اے یا ایم ایس سی کے سٹوڈنٹ تھے . ان میں کوئی بھی پرائمری‘ہائی سکول یا کالج لیول کے سٹوڈنٹ نہیں تھے وہ نمازِ جمعہ کے بعد حلقہ بنا کر بیٹھتے .قرآن مجید کا ایک رکوع ایک نے پڑھا‘ اگر اس میں اس نے کوئی غلطی کی تو اس کی تصحیح کر دی گئی. وہی رکوع دوسرے نے پڑھا‘ پھرتیسرے نے پڑھا تاکہ تجوید صحیح ہو جائے. پھر ان کے ذمے یہ ہوتا تھا کہ ہر کوئی مختلف تفسیر پڑھ کے آئے اور اپنا اپنا بیان کرے تو اسے ہم کہیں گے سٹڈی سرکل . یہ تدارس ہے جس کو رسول اللہ  نے بہت فضائل کا باعث قرار دیا ہے.

سکون او راطمینان کے نزول کا باعث: آپ نے فرمایا کہ جب لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوں اللہ کی کتاب کو پڑھنے کے لیے اور آپس میں باہم ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے(تدارس )کے لیے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے : اِلاَّ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ ’’ان پر سکینت نازل ہوتی ہے‘‘.یعنی اللہ کی طرف سے سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو ایمان کا اصل حاصل ہے. ایمان‘امن سے ہے‘ اسی لیے حضور مہینے کا نیا چاند دیکھتے تھے‘تو کہتے تھے : اللَّہُمَّ أَہِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِیمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْإِسْلَامِ‘ رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ (۱’’اے اللہ اس چاند کو ہمارے لیے امن‘ (۱) سنن الدارمی‘کتاب الصوم‘باب ما یقال عند رؤیۃ الہلال. ایمان‘سلامتی اور اسلام کا باعث بنا . (اے چاند) میرا اور تمہارا پروردگار اللہ ہے‘‘. سلامتی‘اسلام سے ہے اور امن‘ایمان سے . امن انسان کی داخلی کیفیت ہے‘جبکہ سلامتی ایک معاشرتی معاملہ ہے. پہلے امن ہو گا اور بعد میں معاشرہ میں سلامتی کاد ور دورہ ہوگا.امن وسلامتی بہت ضروری ہے تاکہ کسی سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے‘ کوئی کسی کو ناحق قتل نہ کرے‘ کوئی کسی کا مال نہ چھینے‘ لہٰذاایک دوسرے کے لیے سلامتی والے بن جاؤ.اہل جنت کے بارے میں آیاہے کہ وہ ایک دوسرے کو سلام کریں گے: اِلَّا قِیۡلًا سَلٰمًا سَلٰمًا ﴿۲۶﴾ (الواقعہ).حضور نے بھی فرمایاکہ اپنے مابین سلام کو عام کرو. قاعدہ تو یہ ہے کہ چھوٹے بڑوں کو سلام کریں‘لیکن اگر کہیں بڑا چھوٹے کو سلام کرے تو دوگنا ثواب ہو جائے گا اور چھوٹے کو ایک طرح سے ادب کی تعلیم ہو جائے گی کہ مجھے پہلے سلام کرنا چاہیے‘لہٰذا ہر مسلمان کو سلام کرو . ایک حدیث میں تو بڑے پیارے الفاظ آئے: 

لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا، وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوْا، أَوَلَا أَدُلُّکُمْ عَلٰی شَیْئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوہُ تَحَابَبْتُمْ، أَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ 
(۱
’’تم ہرگز جنت میں داخل نہیں ہو سکوگے جب تک کہ مؤمن نہ ہو،اور تم ہرگز مؤمن نہ ہوسکو گے جب تک آپس میں محبت نہ کرو . کیا میں تمہاری راہنمائی نہ کروں اس چیز کی طرف کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو آپس میں محبت پیدا ہو جائے: اپنے درمیان سلام کو عام کرو!‘‘

دنیا میں greeting کے اور بھی الفاظ ہیں‘مثلاًگڈ مارننگ‘ گڈ ایوننگ ‘ ہائے‘ہیلو‘نمستے وغیرہ‘ لیکن ان میںبہترین ’’السلام علیکم‘‘ ہے اور اس کا جواب دینا بھی واجب ہے.اس کے جواب کے بارے میں فرمایا گیا کہ تم اس سے بڑھ کر جواب دو‘نہیں تو کم سے کم اتنا جواب تو لازمی دو. سورۃ النساء میں فرمایا گیا: وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡہَا ؕ (آیت ۸۶’’اور جب تمہیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تو تم بھی سلامتی کی اس سے بہتر دعا دو یا اسی کو لوٹا دو‘‘. بعض لوگ اپنے تکبر میں سلام کے جواب (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘باب بیان انہ لا یدخل الجنۃ الا المؤمنون… میں بس سر ہلا دیتے ہیں. یہ رویہ صحیح نہیں ہے اور یہ تکبر کی علامت ہے .کسی نے آپ کو ’’السلام علیکم‘‘ کہا ہے تو جواب میں آپ ’’وعلیکم السلام‘‘ کہیں‘ بلکہ بہتر ہے کہ بڑھا کر ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہیں.

رحمت اور فرشتوں کا گھیر لینا: رسول اللہ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے گھر میں جمع ہو کر قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں‘ درس و تدریس کرتے ہیں تو ان پر ایک تو سکون و اطمینان کی کیفیت نازل ہوتی ہے‘دوسری فضیلت ان کی یہ ہے کہ : وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ ’’اور رحمت خداوندی انہیں ڈھانپ لیتی ہے‘‘.ان پر سایہ فگن ہوجاتی ہے. اللہ تعالیٰ جب دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ میرا کلام پڑھ رہے ہیںتواللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے.تیسری فضیلت یہ بتائی گئی کہ: وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَائِکَۃُ ’’اور فرشتے ان کے گرد چاروں طرف سے گھیرا ڈال لیتے ہیں.‘‘

اللہ کا فرشتوں کے سامنے اُن کا تذکرہ کرنا: مندرجہ بالاتین فضائل کے علاوہ رسول اللہ نے ان کی ایک اور فضیلت بھی بیان فرمائی ہے جو ان سب سے اعلیٰ ہے.آپؐ نے فرمایا: وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ ’’اللہ ان کا ذکر کرتا ہے ان کے سامنے جو اس کے پاس ہیں‘‘.اللہ تعالیٰ کے پاس ملائکہ مقربین ہیں‘تو اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اپنے ان نیک بندوں کا تذکرہ کرتا ہے ملائکہ کے بھی کچھ درجے ہیں. ملائکہ کا ایک گروہ دنیا کے انتظام و انصرام میں لگا ہوا ہے.ایک گروہ ملائکہ مقربین کا ہے جو اللہ تعالیٰ سے نہایت قرب رکھتے ہیں.پھر وہ آٹھ فرشتے ہیں جو حاملین ِعرش ہیں‘اللہ تعالیٰ کے عرش کو تھامے ہوئے ہیں.پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام کا اپنا ایک الگ مقام ہے.چنانچہ فرشتوں کے اندر بھی حفظ مراتب کا معاملہ ہے لہٰذااللہ تعالیٰ ملائکہ مقربین میں ان کا ذکر کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ تم توکہتے تھے یہ آدم زمین میں خونریزی کرے گا اور فساد مچائے گا‘لیکن دیکھو میرے یہ بندے بغیر کسی دنیوی غرض کے صرف میرے کلام کو سمجھنے کے لیے جمع ہوئی ہیں. 

اللہ کا شکر ہے کہ ا سی دور میں‘اسی لاہور میں سات سات سو آدمی اتوار کی صبح کو میرا درس سننے کے لیے مسجد شہداء میں جمع ہوتے رہے ہیں.اس درس میں کوئی سیاست کی بات نہیں ہوتی تھی‘نہ حکومت کے خلاف اورنہ اپوزیشن کے حق میں.اسی طرح اس میںفرقہ واریت کی بھی کوئی بات نہیں ہوتی تھی‘نہ اختلافی مسائل ہوتے تھے اور نہ ہی قصے کہانیاں ہوتی تھیں‘بلکہ صرف اور صرف اللہ کی کتاب پڑھنا پڑھانا اور سیکھنا سکھانا ہوتا تھا.جو اللہ کی کتاب کہہ رہی ہے اسے کھل کر بیان کیا جاتا تھا اور اس ضمن میں کوئی کتمان نہیں ہوتا تھا‘کوئی بات چھپائی نہیںجاتی تھی.ایسی محافل کے بارے میں ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے فرشتوں کے سامنے کرتا ہے.

زیر مطالعہ جملہ میں ’’فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں اور اس کا مصداق اولاًمسجد ہی ہو گی‘اس لیے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسجدیں اللہ کے گھر ہیں. ویسے توہم ’’بیت اللہ‘‘خانہ کعبہ اور مسجد حرام کو کہتے ہیں‘لیکن آپ کے فرمان کی روسے کل روئے زمین کی مسجدیں کعبہ کی بیٹیاں ہیں.جبکہ شارحین حدیث نے اس کو عام رکھا ہے کہ یہ صرف مسجد کے ساتھ خاص نہیں ہے‘بلکہ جس جگہ کو بھی آپ نے تلاوتِ قرآن مجید اور درس وتدریس کے لیے خاص کیا ہے تو گویا اس کا شمار بھی اللہ کے بیوت میں ہو گا.

ایک بار پھر سن لیجیے‘رسو ل اللہ نے فرمایا: وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ ’’نہیں جمع ہوتے کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں‘‘ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُوْنَہٗ بَیْنَھُمْ ’’اللہ کی کتاب کو پڑھتے ہوئے اور آپس میں ایک دوسرے کو افہام و تفہیم کرتے ہوئے‘‘ اِلاَّ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ’’مگر یہ کہ ان پر سکینت نازل ہوتی ہے‘‘ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ ’’اور رحمت خداوندی ان کو ڈھانپ لیتی ہے‘‘ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَائِکَۃُ ’’اور فرشتے ان کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں‘‘ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ ’’اور اللہ ان کا تذکرہ اُن فرشتوں سے کرتا ہے جو اُن کے پاس ہیں‘‘کہ میرے بندے میرے فلاں گھر میں یا فلاں مقام پر میری کتاب کو پڑھنے کے لیے جمع ہیں اور اس میں ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے ‘ کوئی دُنیوی غرض و غایت نہیں ہے سوائے میری کتاب سے محبت کے.