میں نے آپ کو یہ حدیث سنائی تھی 
اَللّٰہَ اَللّٰہََ فِیْ أَصْحَابِی لَا تَتَّخِذُوْہُمْ غَرَضًا بَعْدِی ، فَمَنْ أَحَبَّہُمْ فَبِحُبِّیْ أَحَبَّہُمْ ، وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ فَبِبُغْضِیْ أَبْغَضَہُمْ 
(۱
’’میرے بعد میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرنا اور ان کو ہدفِ ملامت نہ بنانا‘اس لیے کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھا. ‘‘

یعنی میرے اصحاب پر تنقید کرنے‘ سب و شتم کرنے‘ ان کی برائی بیان کرنے سے بچو.جو کوئی بھی ان سے محبت کرتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے کرتا ہے‘ اس لیے کہ وہ نسبت ِمحمدیؐ کے ساتھ صحابی بنا ہے.چنانچہ جس کے دل میں میری محبت ہے تواس کے دل میں میرے صحابہؓ کی محبت بھی ہو گی.دوسری بات یہ کہ جو میرے صحابہ سے بغض رکھے گا تو اس کا اصل بغض مجھ سے ہے. میرے صحابہ پر جو بغض نکالتا ہے‘ ان پرسب و شتم کرتا ہے‘ تبرا کرتا ہے‘ انہیں برا بھلا کہتا ہے‘ان پر تنقیدیں کرتا ہے تو درحقیقت اسے اُن سے نہیں‘مجھ سے بغض ہے.ظاہر ہے ایسا شخص آنحضورپرتو اپنا بغض نکال نہیں سکتا‘اس لیے کہ آپ کوکچھ کہنا ایسا ہی ہے جیسے آسمان پر تھوکنا.اب تھوک آسمان پر تو جائے گا نہیں‘ اپنے منہ پر ہی آئے گا. آپ تو اتنی بلند ترین شخصیت ہیں کہ کوئی بہت ہی بدنصیب اور بہت ہی بدطینت انسان ہوگاجو آپ کی ذات پر طعن وتعریض کرے گا. جو کچھ بھی ڈنمارک میں یامغرب میں کہیں اور ہو رہا ہے وہ تو دشمن کررہے ہیں‘لیکن نام نہاد مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے آپ کی ذات پر رکیک حملے کیے‘چاہے وہ سلمان رشدی ہو یا تسلیمہ نسرین بنگالی‘جو نام کے مسلمان تھے. بہرحال عام طو رپر لوگ حضور کی ذات پر حملہ نہیں کرتے بلکہ آپؐ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر حملہ (۱) سنن الترمذی‘ابواب المناقب‘باب فی سب اصحاب النبی . کرتے ہیں‘اور اس حملے کی زد دراصل حضور کی ذات پر پڑتی ہے‘کیونکہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے. پھل کڑوا ہو گا تو لوگ کہیں گے اس درخت کا پھل اچھا نہیں ہے اور اگر پھل اچھا ہے تو لوگ درخت کی تعریف کریں گے.گویا بغض ِ صحابہ‘دراصل بغض رسولؐ ہے. اسی لیے صحابہ ؓ پر تنقید کرنے اور طعن وتشنیع سے بہرصورت بچنا چاہیے.