زیر مطالعہ حدیث میں آخری بات رسول اللہ نے یہ فرمائی: وَمَنْ بَطَّأَ بِہٖ عَمَلُہٗ لَمْ یُسْرِعْ بِہٖ نَسَبُہٗ ’’جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے رکھ دیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا‘‘.یعنی اصل چیز انسان کا عمل ہے ‘ حسب و نسب سے انسان آگے نہیں بڑھتا .کسی کو اس چیز کا گھمنڈ نہیں ہونا چاہیے کہ میں فلاں بن فلاں ہوں‘میں فلاں نسل سے ہوں. یہودیوں کو اپنی نسل پر فخر تھا اور وہ کہتے تھے: نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ؕ (المائدۃ:۱۸’’ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اُس کے بڑے چہیتے ہیں‘‘. ہمارے ہاں بھی اسی طرح کے معاملات ہوتے ہیں. سید زادہ اپنے نسب پر فخر کر تا ہے کہ میں سید زادہ ہوں . حسب نسب اپنی جگہ ہے‘ اسلام اس کی نفی نہیں کرتا‘لیکن اگر اس کا اپنا عمل پیچھے رہ گیا اور اس کے عمل نے اسے پیچھے چھوڑ دیا تو پھر یہ محض نسبت کی وجہ سے آگے نہیں آ سکتا. فارسی میں بڑی اچھی کہاوت ہے:’’پدرم سلطان بود!‘‘(میرا باپ بادشاہ تھا!)اب اس پرکوئی کہے گا:’’تراچہ؟‘‘یعنی تمہارا باپ تو سلطان تھا‘لیکن تم کیا ہو؟ لہٰذا آپ نے فرمایا کہ جس کا عمل اسے پیچھے چھوڑ دے اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا.

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کی ان تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

آمین یا ربّ العالمین! 
اَقُوْلُ قَوْلِیْ ھٰذَا وَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ والمُسْلِمَاتoo