میں بہت دفعہ یہ واضح کر چکاہوں کہ قرآن مجید میںجنت کی نعمتوں کے ضمن میں ان چیزوں کاتذکرہ ہے جن کے بارے میں ہم جانتے بھی ہیں اور جو یہاں موجود بھی ہیں‘جیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡہَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ… (البقرۃ:۲۵’’جب بھی انہیں دیا جائے گا وہاں کا کوئی پھل رزق کے طور پر (یعنی کھانے کے لیے) وہ کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی دیا گیا تھا…‘‘ وہاں آم دیا جائے گاتو اہل جنت کہیں گے کہ ہم تو دنیا میں بھی آم کھاتے تھے ‘ لیکن اس آم کی جو لذت ہو گی اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.دوسری اصولی بات اس حوالے سے یہ ہے کہ قرآن مجید میں مذکور ساری نعمتوں کی حیثیت در اصل ابتدائی مہمان نوازی کی ہے‘ جسے عربی میں نُـزُل کہتے ہیں. نَزَلَ یَنْزِلُ بمعنی اُترنا.جیسے ہی کوئی شخص آپ کے دروازے پر آیااور کسی سواری سے اترا‘ تو وہ ’’نَزِیل‘‘ ہے اور آپ فوری طور پر موسم کے مطابق کوئی ٹھنڈا یا گرم اسے پیش کر دیتے ہیں اس کو نُزُل کہتے ہیں. اب اگر وہ آپ کے ہاں مقیم ہو گیا تو وہ ’’ضَیف‘‘ یعنی مہمان ہے اور پھر اس کی ضیافت ہو گی جس کے لیے آپ یقینا اپنی حیثیت کے مطابق عمدہ سے عمدہ اہتمام کی کوشش کریں گے.اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے مہمانوں یعنی اہل جنت کی ضیافت جن نعمتوں کے ذریعے کریں گے ان کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے. حضرت ابوہریرہh سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے ‘رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ : اَعْدَدْتُ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالاَ عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ، فَاقْرَئُ وْا اِنْ شِئْتُمْ : فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ 
(۱(۱) صحیح البخاری‘ کتاب بدء الخلق‘ باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ وانھا مخلوقۃ . وصحیح مسلم‘ کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا. یہ حدیث بخاری و مسلم اور صحاح ستہ کی دیگر کتب کے متعدد ابواب میں بیان ہوئی ہے. ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے (جنت میں) وہ کچھ تیار کر رکھاہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا‘ نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا گمان ہی گزرا. (پھر آپ نے فرمایا:) اگر تم چاہو تویہ آیت پڑھ لو : ’’پس کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ ان(اہل جنت) کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ چھپا کررکھاگیاہے ( السجدۃ:۱۷).‘‘