بہرحال قرآن مجید میں اہل جنت کی ابتدائی مہمانی کے لیے جن دنیوی نعمتوں کا بھی ذکر کیا گیاہے‘اُن سے اہل ایمان نے اپنے آپ کویا تو حرام ہونے کی وجہ سے روکے رکھا یا وہ ان چیزوں سے اس لیے لطف اندوز نہیںہو سکے کہ وہ اللہ کے دین کی جدوجہد کے اندر لگے رہے اچھا کھانا‘ اچھا پہننا حرام نہیں ہے‘اسی لیے فرمایا گیا: قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ؕ (الاعراف:۳۲’’(اے نبی ! ان سے )کہیں کہ کس نے حرام کی ہے وہ زینت جو اللہ نے نکالی ہے اپنے بندوں کے لیے؟ اور (کس نے حرام کی ہیں) پاکیزہ چیزیں کھانے کی؟‘‘اچھی اور پاکیزہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے بنائی ہیں. ویسے دنیا میں تو وہ یہ سب کافروں کو بھی دے دیتا ہے‘ لیکن قیامت کے دن تمام نعمتیں اہل ایمان کے لیے خالص ہوجائیں گی اورپھر وہاں کافروں کے لیے کوئی حصہ نہیں ہو گا. لیکن فرض کیجیے کہ آپ انقلابی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں اور آپ کاسارا وقت اللہ کے دین کو پھیلانے اور غالب کرنے کی جدوجہد میں لگ رہا ہے تو آپ دنیا کو زیادہ نہیں کما پائیں گے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ ان نعمتوں سے لطف اندوز نہیں ہو سکیں گے. آپ کہاں آم اورانگور وغیرہ خرید کر کھا سکیں گے؟وہ تو دو وقت کی روٹی مل جائے تو بہت غنیمت ہے . لہٰذا یا تو حلال اور حرام پر کاربند ہونے کی وجہ سے بندئہ مؤمن ان نعمتوں سے محروم ہو گیایا اس نے اپنی ساری توجہ دین کے لیے لگائی اور اب اس کے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ زیادہ کماسکے‘ لہٰذا اس وجہ سے وہ محروم رہ گیا. اس کا منطقی طو رپر بدلہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ نعمتیں اسے آخرت میں بھرپور طریقے پرملیں. اس لیے کہ اس نے حرام کمائی نہیں کی اور ان نعمتوں سے خود بھی محروم رہا اور اپنے بچوں کو بھی محروم رکھا‘ ورنہ کون نہیں چاہتا کہ جب بھی شام کوگھر آئے تو اپنے بچوں کے لیے پھلوں کا ٹوکرا بھر کر لائے . لیکن جو شخص حلال کی کمائی کر رہا ہے وہ کیسے لائے گا‘ کیسے کھائے گا‘ کیسے کھلائے گا؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن یہ کیاباتیں کرتا ہے کہ اہل جنت کے لیے شرابِ طہور ہو گی‘ دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی‘ پھلوں کے باغات ہوں گے‘ حوریں ہوں گی‘ خدمت گار نوعمر لڑکے ہوں گے ‘وغیرہ. جن کے اوپر ذرا تصوف کا رنگ چڑھ جاتا ہے ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ جوچیزیں اہل جنت کے لیے بتائی جا رہی ہیں ‘یہ تو بڑی گھٹیا سی چیزیں ہیں.ان کا یہ کہنا بلاجواز ہے‘ اس لیے کہ ایک بندۂ مؤمن دنیا میں ان تمام چیزوں سے محروم رہا تو اس کا منطقی طورپر بدلہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ نعمتیں بھرپور ترین سطح پر اسے آخرت میں مہیا ہوں.