اب آیئے اربعین نووی کی زیر مطالعہ حدیث کی طرف‘جسے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماحضور سے روایت کر رہے ہیں اورحضور اللہ تعالیٰ سے روایت کر رہے ہیں. گویا یہ حدیث قدسی ہو گئی. یہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ حضور کی جو حدیث ان الفاظ کے ساتھ آئے کہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے توایسی احادیث کو اصطلاحِ حدیث میں ’’حدیث قدسی‘‘کہا جاتاہے . ان احادیث قدسیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وحی خفی بھی حضور پر نازل ہوتی تھی.رسول اللہ پر نازل ہونے والی ایک وحی جلی تھی جو قرآن میں درج ہوتی تھی اوریہ ممکن نہیں ہے کہ وحی جلی کا ایک حرف بھی قرآن کے اندر درج ہونے سے رہ گیا ہو.دوسری طرف وحی خفی بھی رسول اللہ پر نازل ہوتی تھی ‘جو ہوتا تو اللہ کا کلام تھا‘لیکن یہ قرآن میں درج نہیں ہوتی تھی.

وحی خفی صرف انبیاء و رسل علیہم السلام کے لیے مخصوص نہیں‘ بلکہ یہ کسی نہ کسی درجے میں آپ کو اور مجھے بھی ہوتی ہے. کبھی الہام سا ہوجاتا ہے‘کبھی دل میں بات آ جاتی ہے‘کبھی انسان سچا خواب دیکھتا ہے‘ مثلاًآپ نے خواب میں ایک واقعہ دیکھا جو کچھ دنوں بعدجوں کا توں ظہور پذیر ہو گیا تویہ سب بھی وحی خفی کی مثالیں ہے .اسی طرح قرآن کہتا ہے کہ ہم نے شہد کی مکھی کو وحی کی ہے‘حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو بھی وحی کی گئی‘حالانکہ وہ نبی تو نہیں تھیں اورنبوت تو خواتین کے لیے ہے ہی نہیں‘ تو یہ وحی خفی ہے.اس حوالے سے یہ اصول یاد رکھیں کہ وحی خفی جب کسی نبی پر آتی ہے تو وحی جلی کی طرح بالکل محفوظ ہوتی ہے اور اس میں کوئی شیطانی اثرات شامل نہیں ہو سکتے‘لیکن جو وحی خفی غیر نبی پر آتی تووہ غلط بھی ہو سکتی ہے‘ اس میں شیطانی آمیزش بھی ہو سکتی ہے اور اس میں ہماری خواہشاتِ نفس کے تقاضے بھی شامل ہو سکتے ہیں. جیسے فرائڈ کے نزدیک خواہشاتِ نفس ہی خواب کا روپ دھار لیتی ہیں جب وہ کسی وجہ سے پوری نہیں ہوتیں. درحقیقت یہ وہ خواب ہیں جن کو نفسانی خواب کہا گیا ہے‘جبکہ ایک خواب سچے ہوتے ہیں جو اللہ اور ملائکہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور یہی خواب وحی خفی کا مصداق ہیں.