بہرحال زیر مطالعہ حدیث قدسی میں رسول اللہ فرماتے ہیں: اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ ‘ ثُمَّ بَیَّنَ ذٰلِکَ ’’دیکھو اللہ نے نیکیاں اور بدیاں طے کر دی ہیں اور پھر ان کو واضح بھی کر دیا ہے ‘‘.وہ حدیث ہم پڑھ چکے ہیں: اَلْحَلَالُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ کہ حلال بھی بالکل واضح ہے اور حرام بھی بالکل واضح ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے.اس کے بعد آپ نے فرمایا: فَمَنْ ھَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْھَا کَتَبَھَا اللّٰہُ عِنْدَہٗ حَسَنَۃً کَامِلَۃً ’’جس شخص نے کسی نیکی کا ارادہ کیا اورپھر اس پر عمل نہیں کر سکا تو اس ارادے پر بھی اسے ایک مکمل نیکی کی جزا مل جائے گی‘‘.عمل نہ کرنے کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں ‘یا تو حالات نے اجازت نہ دی ہو ‘یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعد میں اسے اپنا ارادہ تبدیل کرنا پڑ گیاہو‘ لیکن اس نے ارادہ کیا تھا تو اب ارادہ کرتے ہی اسے ایک نیکی مل جائے گی .زیر مطالعہ جملہ میں ھَمَّ کا لفظ آیا ہے ‘ اسی سے لفظ ’’اہتمام‘‘ ہے اور اسی سے ’’ہمت‘‘ کا لفظ بنا ہے.لہٰذا اس لفظ کا مفہوم یہ ہو گا کہ کسی نے نیک کام کرنے کے لیے کمر ہمت کس لی‘ لیکن وہ اپنے ارادے کو بعض خارجی موانع کی وجہ سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکا فرض کیجیے کہ اپنے مال میں سے بڑا صدقہ نکالنا چاہتا تھا لیکن مال پر ڈاکہ پڑ گیا تو اب مال ہی نہیں رہا جسے صدقہ کرسکے یا اپنی سستی کی بنا پر اس پر عمل نہیں کر پایا‘یا اندرونی کیفیات کی وجہ سے نیکی کاارادہ کچھ کمزور پڑ گیا ‘لیکن چونکہ اس نے ارادہ تو کیا تھا ‘لہٰذا اس ارادے کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے پاس ایک مکمل نیکی لکھ لے گا.

آگے رسول اللہ نے فرمایا: فَاِنْ ھَمَّ بِھَا فَعَمِلَھَا کَتَـبَھَا اللّٰہُ عِنْدَہٗ عَشْرَ حَسَنَاتٍ اِلٰی سَبْعِ مِائَۃِ ضِعْفٍ اِلٰی اَضْعَافٍ کَثِیْرَۃٍ ’’اور اگر اس نے ارادہ کیا اور اس پر عمل بھی کر لیا تو اللہ تعالیٰ اس ایک نیکی کو اپنے ہاں دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ لکھ لیتا ہے‘‘.یہ ہے اللہ کا معاملہ کہ ایک نیکی پرکتنا اجر دیتا ہے.اسی حوالے سے میں آپ کو قرآن کی ایک اور آیت سنا دیتا ہوں قرآن وحدیث ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں. ایک کی تعلیم وحی جلی میں آئی ہے اور ایک کی وحی خفی میں‘ احادیث اکثر و بیشتر وحی خفی پر مبنی ہیں یہ سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۶۱ہے‘ جس میں فرمایا گیا: مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ ’’مثال ان لوگوں کی جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایک دانے کی سی ہے‘‘.گندم کا دانہ‘ چاول کا دانہ‘ چنے کا دانہ یا کوئی اور دانہ جسے آپ نے زمین میں بو دیا تو اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ ’’اس میں سے سات بالیاں (سٹے) پیدا ہوں‘‘. اگر آپ نے گندم کا دانہ زمین میں بویا تھا تو اس میں سات سٹے گندم کے لگے ہوئے ہیں یا مکئی کا دانہ بویا تھا تو مکئی کے سات سٹے لگے ہوئے ہیں اور ان سات سٹوں میں سے: فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ ’’ ہر سٹے کے اندر سودانے ہیں‘‘. تو اب سات کو سو سے ضرب دیں تو یہ سات سو ہو گئے. یہی حساب اس حدیث میں آ رہا ہے کہ ایک نیکی کا بدلہ کم از کم دس نیکیاں ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر سات سو گنا تک جائے گا اور بعض اوقات یہ اتنی بار ضرب کھائے گا کہ حساب کتاب کی حد سے ماوراء ہوجائے گا.اسی طرح اس آیت کے آخر میں بھی فرمایا گیا کہ پھر اللہ اس اجر کو دوگنے سے چوگناکرتا رہے گا: وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾ ’’اور اللہ بڑھا چڑھا کر دے گا جس کے لیے چاہے گا.اور اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے.‘‘