یہ تو نیکی کی بات ہو گئی ‘جبکہ برائی کا معاملہ اس سے الگ ہے اور وہاں حساب کتاب نہیں چلے گا. اس بارے میں فرمایا: وَاِنْ ہَمَّ بِسَیِّّئَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ عِنْدَہٗ حَسَنَۃً کَامِلَۃً وَاحِدَۃً‘ وَاِنْ ہَمَّ بِہَا فَعَمِلَہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ سَیِّئَۃً وَاحِدَۃً ’’اور اگر کسی نے برائی کاارادہ کیا اور اس پر عمل نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی اپنے ہاں ایک نیکی درج کر لے گا‘اوراگر برائی کا ارادہ کر کے عمل بھی کر لے تو اللہ تعالیٰ اپنے ہاں اسے صرف ایک ہی گناہ لکھتا ہے‘‘.یعنی کسی نے بدی کاارادہ کیا تھا‘لیکن اس پر عمل کرنے سے کسی وجہ سے باز رہا.اب یہ باز رہنا کسی خارجی مانع کے تحت بھی ہوسکتا ہے‘مثلاً چوری کے ارادے سے کہیں جارہا تھا لیکن ابھی وہاں تک پہنچا ہی نہیں تھا کہ پولیس والوں نے پکڑ لیا تو وہ چوری نہیں کر پایا.اب منطق کا تقاضا تویہ ہے کہ اس کے بدلے میں اسے کچھ نہیں ملناچاہیے‘ اس لیے کہ وہ تو چوری کرنے جا رہا تھا‘اگر خارجی مانع نہ آتا تو وہ یہ برائی کر گزرتا‘لیکن اس سب کے باوجود اگرچوری نہ کرسکا تو اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائے گی.ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے بدی کا ارادہ کیا‘لیکن ساتھ ہی باطنی کیفیت کے اندر ضمیر کی خلش جاگ گئی اور وہ باز آ گیا تو اس صورت میں تو لازماً اس کا حق ہے کہ اس کو نیکی کا درجہ دیا جائے.
اب دیکھئے یہ ساری چیزیں جو یہاں آ رہی ہیں‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ منطق سے بہت اونچا ہے. اس ضمن میں خاص طور پر سورۃ الحجرات کی آیات بہت اہم ہیں.فرمایا: قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ ’’یہ بدو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے. ان سے کہہ دیجیے کہ تم ایمان ہرگز نہیں لائے ہو‘ بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اور ایمان ابھی تمہارے دلوں کے اندر داخل نہیں ہوا‘‘.یعنی تم جو اسلام کی مخالفت کر رہے تھے وہ تم نے ختم کر دی‘لیکن اس طرح تم مؤمن تو نہیں ہوئے نا! اب منطق تو یہی کہے گی کہ جب وہ حقیقتاً مؤمن نہیں ہیں اور مسلم انہیں مانا جا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ منافق ہیں اور منافق کی کوئی نیکی قبول نہیں ہونی چاہیے لیکن یہاں ا ن کے اعمال کی قبولیت کا اعلان بھی ہے.گویا یہاں منطق نہیں چلے گی‘ بلکہ اللہ کا فضل و کرم اور اُس کی رحمت چلے گی : وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ ’’اگر تم اطاعت کرتے رہو (اس حال میں بھی کہ ایمان تمہارے دلوں میں نہیں ہے)تو اللہ تمہارے اجر و ثواب میں کمی نہیں کرے گا‘‘. اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ ’’یقینا اللہ انتہائی بخشنے والا ‘ بے پناہ رحم کرنے والا ہے‘‘.چنانچہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین ہر منطق سے ماورا ہیں. 

اسی طرح بعض احادیث کی رو سے اور قرآن مجید کے چند ایک مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص نے گناہ کا ارتکاب کیا تو ایمان اس کے دل سے نکل گیا.اس کے بعد اگر اس نے توبہ کر لی تو ایمان واپس آ گیا.یہ بات تو منطقی ہے لیکن قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ بندۂ مؤمن جیسے ہی گناہ سے فارغ ہوتا ہے تو وہ ایمان جو اس کے دل سے نکل گیا تھا‘ فوراً واپس آ جاتا ہے. یہ بات منطق کے تو خلاف ہے. توبہ کے بعد ایمان کا واپس آ جانا توسمجھ میں آتا ہے‘ لیکن محض گناہ کا ارتکاب ختم ہونے کے بعد ایمان کا واپس لوٹ آنا منطق کے خلاف ہے‘ لیکن ہم اس کو مانیں گے ‘اس لیے کہ یہ اللہ ربّ العزت کا فضل ہے جو کسی چیز کا محتاج نہیں ہے. جیسے آج کی زیر مطالعہ حدیث میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ نیکی کے ساتھ اللہ کا معاملہ کچھ اور ہے‘جبکہ بدی کے ساتھ کچھ اور ہے. بدی کی صورت میں اس کے برابر سزا ملے گی‘ اس کے برعکس نیکی کے معاملے میں دس گنا ‘ سات سو گنااور اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب ملے گا. اب منطق اس کو نہیں مانتی کہ نیکی کا بدلہ نیکی سے زیادہ ہو‘ لیکن ان چیزوں کے اندر بات منطق کی نہیں‘ اللہ کے فضل و کرم کی ہے.