سورۃ الاعراف(آیت ۱۵۶)میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حوالے سے فرمایا گیا: وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ ’’اورمیری رحمت ہر شے کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے‘‘.اسی طرح یہ حدیث قدسی بھی ہم پڑھ چکے ہیں کہ اللہ فرماتا ہے : سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلٰی غَضَبِیْ ’’میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے جاتی ہے‘‘ یقینا اللہ تعالیٰ سزا دینے والا بھی ہے‘شدید العقاب بھی ہے‘ لیکن ساتھ ہی غفور بھی ہے‘ رحیم بھی ہے اور اس کی شانِ غفوری اس کی سزا والی شان سے بالاتر ہے. بہرحال وہ بدلہ لینے والا بھی ہے اور سزا دینے والا بھی ہے.آخر جہنم کس لیے بنائی ہے‘ حساب کتاب کس لیے ہو رہا ہے ‘ کراماً کاتبین جو ہر وقت ہمارے اعمال لکھ رہے ہیں‘یہ سب کس لیے ہے؟ اس لیے کہ اسی کی بنیاد پر ہمارا حساب کتاب ہو گا‘ جزا وسزا بھی ملے گی. یہ سب ہو گا‘لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت غالب ہے.کسی نے صحیح کہا ہے کہ ’’رحمت حق بہانہ می جوید‘‘ یعنی رحمت ِخدا وندی توبہانہ چاہتی ہے کہ کوئی نہ کوئی بات ہو‘ بنیاد ہو تو اس کی رحمت جوش میں آجائے.اس قول کو اس طرح بھی پیش کیا جاتا ہے : ’’رحمت حق بہانمی جوید‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنی قیمت نہیں چاہتی چنانچہ قرآن مجید میں چار جگہ آیا ہے : وَ ہُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ﴿﴾ (الاعراف:۱۵۱‘ یوسف:۶۴و۹۲‘ الانبیائ:۸۳’’وہ تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے‘‘.حضور نے ایک دفعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ سوچو تو سہی کہ کیا کوئی ماں کبھی چاہے گی کہ اس کے بچے کو آگ میں ڈال دیا جائے؟اسی طرح اللہ بھی نہیں چاہے گا کہ اپنی مخلوق کو آگ میں ڈالے. قرآن مجید میں آیا ہے : مَا یَفۡعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمۡ اِنۡ شَکَرۡتُمۡ وَ اٰمَنۡتُمۡ ؕ (النسائ:۱۴۷’’اللہ کو کیا لینا ہے تمہیں عذاب دے کر اگر تم اللہ کے شکر گزار بندے بنو اور اس پر ایمان لاؤ!‘‘کچھ لوگوں کو دوسروں کو اذیت دینا پسند ہوتا ہے اور وہ دوسروں کو اذیت دے کر خوش ہوتے ہیں. معاذ اللہ ‘ثم معاذ اللہ!اللہ عزوجل ایساہرگز نہیں ہے‘ بلکہ رحمت خداوندی تو بہانہ چاہتی ہے اور اس کی رحمت کی وسعت کا کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا.