قرآن و حدیث کی روشنی میں آج کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ نیکی کا صرف ارادہ کرنے پر ایک نیکی مل جاتی ہے اور اس پر عمل کرلینے سے اس پر دس گنا‘سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ اور بے حساب کتاب اجر ملے گا‘ جبکہ اس کے مقابلے میں برائی کا ارادہ کرنے کے بعد اس پر عمل نہ کرنا ازخود ایک نیکی شمار ہوگی اور اگربرائی کرلی تو پھر اس کے مطابق اور اسی کی مقدار سزا ملے گی.یہ گویااس حدیث سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلٰی غَضَبِیْ اوراس آیت وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ کی بھی ایک توجیہہ ہو گئی. اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دامن رحمت میں لے لے اور ہم کم از کم نیکیوں کا ارادہ کرنے کا تو فیصلہ کرلیں. 

یاد رکھیں کہ سب سے بڑی اور سب سے پہلی نیکی اللہ کے دین کے خلاف ہونے والی بغاوت کو روکنے کا ارادہ کرنا ہے ‘اور پھر اس میں بالفعل جدوجہد کرنا‘ تن من دھن لگانا یہ سب سے اونچی نیکی ہے. اگر یہ ارادہ ہی نہیں ہے تو اللہ کو تمہاری نمازیں‘ روزے درکار نہیں ہیں. اللہ کہتا ہے کہ اگر تم میرے وفادار ہو تو پھر طاغوت کے وفادار کیسے ہو گئے؟یہ دو باتیں تو یکجا نہیں ہو سکتیں.پچھلی دفعہ سورۃ البقرۃ کی یہ آیت ہمارے زیر مطالعہ آئی تھی: فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ … (آیت۲۵۶’’تو جو کوئی بھی طاغوت کا انکار کرے اور پھر اللہ پر ایمان لائے…‘‘ یعنی پہلے طاغوت کا کفر ہے اور پھر اللہ پر ایمان کا مرحلہ ہے. گویا اللہ کے دین کے خلاف ہونے والی بغاوت کو روکنے کا ارادہ کر لینا ‘ کم سے کم نیکی ہے اور بلند ترین نیکی وہ ہو گی کہ اس راہ میں وہ وقت بھی آ جائے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر ہم میدان میں حاضرہو جائیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے شہادت سے سرخرو ہونے کا موقع آجائے. 

اللہ تعالیٰ ہمیں نیکی کا ارادہ کرنے کی توفیق دے اور خاص طور پر طاغوت سے بغاوت اور اللہ کی حکومت اور اللہ کے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کا ہم نہ صرف ارادہ کریں ‘بلکہ اس پر عملاً کاربند ہوں اور تن من دھن لگائیں. 

اَقُوْلُ قَوْلِیْ ھٰذَا وَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ والمُسلماتoo