زیر مطالعہ حدیث کے دو حصے ہیں اور پہلا حصہ قدرے مختصر ہے . حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے: مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِــیًّا فَـقَـدْ آذَنْـتُہٗ بِالْحَرْبِ ’’جس شخص نے میرے کسی ولی کے ساتھ دشمنی رکھی تو اس کے خلاف میری جانب سے اعلانِ جنگ ہے‘‘.اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ولی کسے کہتے ہیں اوراللہ کے ولی کون ہیں. اس کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں مختلف تصوراتہیں.عمومی تصور یہی ہے کہ ولی وہ ہوتا ہے جس سے کچھ خارقِ عادت باتیں ظاہر ہو جائیں‘ کرامات ظاہر ہوں‘ جو غیب کی کچھ باتیں بھی بتا دے اور کچھ مستقبل کی بھی. مزید یہ کہ اس کی زندگی میں شریعت کی پیروی بھی موجود ہو اور نظر بھی آر ہی ہو‘یعنیاس کا لباس اور اس کی وضع قطع سنت کے بہت قریب ہو. ولی کے حوالے سے یہ تصورات ہمارے ذہنوں میں ہیں ‘جو غلط نہیں ہیں‘لیکن سب سے پہلے گہرائی میں سمجھئے کہ ولی ہوتا کون ہے.

اس سے بھی پہلے یہ بنیادی بات جان لیجیے کہ ولایت کا رشتہ یک طرفہ نہیں‘ دو طرفہ ہوتا ہے. یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا ولی ہے اور اہل ایمان اللہ کے ولی ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے محبت کرتا ہے اوراہل ایمان اللہ سے محبت کرتے ہیں. تو یہ دو طرفہ معاملہ ہے.اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف کہ ولی کون ہوتا ہے. ولی اور ولایت کو سمجھنے کے لیے میں نے ابتدامیں دو آیات تلاوت کی ہیں. ایک سورۃ البقرۃ میں آیت الکرسی کے فوراً بعد کی آیت ہے. فرمایا: اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ … ’’اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا ولی ہے …‘‘ دوست ‘ ساتھی‘ مددگار‘ پشت پناہ‘ یہ سارے الفاظ جمع کر لیں‘لفظ ولی ان سب پر محیط ہے. اللہ اہل ایمان کا ولی ہے اور اس کا ظہور یوں ہوتا ہے : یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ (آیت ۲۵۷’’وہ نکالتا رہتا ہے اہل ایمان کو تاریکیوں سے نور کی طرف‘‘. تاریکیوں سے نور کی طرف آنا ایک تدریجی (gradual) عمل ہے. اس کا آغاز تو اسی وقت ہو جائے گا جب کوئی شخص زبان سے کلمہ شہادت (اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُـہٗ) ادا کرے گا.یہاں سے وہ رشتہ شروع ہو گیا اور پھر اس رشتے میں ترقی ہوتی ہے اوریہ تدریجاًآگے بڑھتا ہے .ایمان لانے کے بعد انسان کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکل کر ایمان کے نور میں آگیا‘ لیکن اس کے بعد ابھی اور بہت سے پردے ہیں جنہیں چاک کرنا ہو گا‘ جن میں سے نکلنا ہو گا.اورپھر جیسے جیسے یہ تاریکیاں چھٹتی جائیں گی تو اس نور کے اندر اضافہ ہوتا جائے گا.

یہی مضمون سورۃ التحریم میں بھی آیا ہے کہ قیامت کے دن اہل ایمان کا نور ان کے آگے اور داہنی طرف دوڑتا ہو گا اور وہ اللہ ربّ العزت سے دعا کریں گے : رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۸﴾ ’’ اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارے نور کو کامل کر دے اور تو ہمیں بخش دے‘ یقینا تو ہر شے پر قادر ہے‘‘.اِتمامِ نور کی دعا کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں سب لوگ ایمان میں برابر نہیں تھے. ایک ایمان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تھا اور ایک عام صحابی کا تھا اورایک ہم میں سے کسی کا ہے تو ان میںزمین و آسمان کا فرق ہے.پھر اسی نسبت و تناسب (ratio proportion) سے میدانِ حشر میں نور ملے گا . اُس وقت وہاں اور کوئی نور نہیں ہو گا‘بلکہ گھپ اندھیرا ہوگا اوراسی اندھیرے میں پل صراط پر سے گزرنا ہوگا جس کے نیچے جہنم ہے. ذرا ٹھوکر کھائی اور گئے جہنم میں. اس کا نقشہ سورۃ الحدید میں کھینچا گیا ہے کہ اہل ایمان تو پل صراط سے گزر جائیں گے ‘اس لیے کہ ان کے پاس نور ہو گا‘ان کے سامنے بھی اور داہنی طرف بھی. سامنے تو ایمان کا نور ہو گا ‘ جبکہ داہنی طرف اعمالِ صالحہ کا نور ہو گا. جبکہ منافقوں کے پاس کوئی نور نہیں ہو گا. دنیا میں چونکہ وہ اہل ایمان کے ساتھ رہتے تھے تو وہاں وہ اہل ایمان سے کہیں گے : انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ ۚ(آیت۱۳’’ذرا ہمارا انتظار کرو کہ ہم بھی تمہاری روشنی سے فائدہ اٹھالیں.‘‘ 

اس نور کے بارے میں روایات میںآتا ہے کہ کسی کے پاس اتنا نور ہو گا کہ مدینہ منورہ سے صنعاء تک اس کی روشنی چلی جائے گی اور کسی کا نور بس اتنا ہو گا کہ جس سے صرف اس کے قدموں کے آگے روشنی ہوجائے گی. ایسا شخص بھی اُس دن بہت خوش قسمت ہو گا‘اس لیے کہ جنگل میں چلتے ہوئے اگر کسی کے ہاتھ میں ٹارچ بھی ہوجس کی روشنی بہت دور تک تو نہیں جا سکتی‘لیکن قدموں کے آگے تو نظر آ جاتا ہے کہ کوئی گڑھا تو نہیں‘ کوئی سانپ تو نہیں بیٹھا ہوا. چنانچہ اتنا نور بھی غنیمت اور بڑی نعمت شمار ہو گا.اس کا دوسرا پہلو سورۃ التحریم کی زیر مطالعہ آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ جن کے پاس نور کم ہوگا تو وہ اللہ سے دعا کریں گے کہ پروردگار! ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہمارا نور مدھم ہے‘ پس توہمیں بخش دے اور ہماری مغفرت فرما دے اور ہمارے نور کی تکمیل کردے. اسی طرح سورۃ البقرۃ میں بتایا گیا کہ اللہ اپنے ولیوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لاتا رہتا ہے. 

دوسری آیت جو میں نے ابتدا میں تلاوت کی‘یہ سورئہ یونس کی آیت ہے جو بہت عام ہے اور اکثر وعظوں‘ تقریروں اور عوامی جلسوں میں پڑھی جاتی ہے. اس آیت میںاولیاء اللہ کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے : اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾ ’’آگاہ ہو جاؤ! اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘.اگلی آیت میں اولیاء اللہ کی تعریف بایں الفاظ کی گئی ہے: الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾ ’’وہ لوگ جو صاحب ایمان ہوں اور تقویٰ کی روش اختیار کریں‘‘. لَہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ ’’ان کے لیے بشارتیں ہیں دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی‘‘. لَا تَبۡدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ؕ۶۴﴾ ’’ اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی.یہی تو ہے بہت بڑی کامیابی.‘‘