ان آیات میں واضح کر دیا گیا کہ اللہ کا ولی وہ ہے جو ایمانِ حقیقی سے بہرہ مند ہو اور تقویٰ کی روش اختیار کیے ہوئے ہو.اب ایمان کے مختلف مراحل ہیں.ایمان کا پہلا قدم تو شہادت یعنی زبانی گواہی ہے اوراس کا دوسرا قدم ہے دل میں یقین کا پیدا ہو جانا.سورۃ الحجرات کی یہ آیت میرے بیان میں بہت مرتبہ آئی ہے: قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ (آیت ۱۴’’یہ بدو کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں. (اے نبی ان سے) کہہ دیجیے: تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو‘ بلکہ تم یوں کہو کہ ہم مسلمان (اطاعت گزار) ہو گئے ہیں اور ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے‘‘.یہ بدو دعویٰ توایمان کا کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں یہ اسلام لائے ہیں‘ ایمان ابھی نہیں لائے اور یہ اپنے ایمان کے دعوے میں تب سچے ہوں گے جب ان کے دل کے اندر یقین پیدا ہو جائے گا.دل میں یقین کا پیدا ہوجانا ایمان کا دوسرا قدم ہے اور پھر اس سے اگلا مرحلہ یہہے کہ اس یقین کی پختگی اتنی ہو جائے کہ جیسے اپنی آنکھوں سے کسی چیز کو دیکھ کر یقین ہوتا ہے‘جسے عین الیقین کہا جاتا ہے. یہ یقین کا اعلیٰ ترین درجہ ہے اور یہی’’ احسان‘‘ ہے کہ یہ احساس پیدا ہو جائے کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں یا یہ یقین تو کم سے کم ہو جائے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کی نگاہوں میں ہوں. چنانچہ ایمان کے تین درجے ہوگئے . درجہ اول زبانی گواہی‘ درجہ دو م یقین قلبی اور درجہ سوم عین الیقین ‘ اور اسی کا نام احسان ہے اور یہی تصوف کی منزل ہے کہ یقین اس درجے میں ہو جانا گویا انسان اللہ کو دیکھ رہا ہے یا کم سے کم ہروقت یہ استحضار رہے کہ میں اللہ کی نگاہوں میں ہوں.

اسی طرح تقویٰ کے بھی مختلف مراحل ہیں . شراب کی حرمت کے ضمن میں آنے والی آخری آیات یعنی سورۃ المائدۃ کی آیات ۹۰‘ ۹۱۹۲ میں جب شراب کے بارے میں آخری حکم آیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تشویشلاحق ہو گئی کہ شراب نجس چیز تھی اور ہمیں تو پیتے ہوئے عمریں بیت گئی ہیں. شراب عرب کے کلچر کا جزوِلازم تھی‘جیسے آج مغرب کی تہذیب میں جزوِلازم ہے اورشراب کے بغیر کسی کھانے کا تصور نہیں ہے ‘تو شراب پیتے سالہا سال ہو گئے تھے .چنانچہ جب لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی تو ان کی تسلی کے لیے فرمایا گیا: لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا ’’ان لوگو ں پر جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے کوئی گناہ نہیں ہے اس میں جو وہ(پہلے) کھا پی چکے‘‘.یعنی اس آخری حکم کے آنے سے پہلے جو کچھ کھایا پیا وہ اب معاف‘لیکن اس کی چند شرائط بھی ساتھ ہی بیان ہوئیں.وہ یہ ہیں کہ : اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ’’ جب تک وہ تقویٰ کی روش اختیار کیے رکھیں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں‘‘ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ’’پھر مزید تقویٰ اختیار کریں اور ایمان لائیں‘‘ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ ’’ پھر اور تقویٰ میں بڑھیں اور درجہ ٔ احسان پر فائز ہو جائیں‘‘. وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ محسنوں سے محبت کرتا ہے‘‘.اس آیت سے معلوم ہوا کہ تقویٰ کے بھی تین درجات ہیں. گویا ایمان اور تقویٰ دونوں کے تین تین مراحل ہوئے.