اب میں تھوڑا سا تجزیہ کر کے آپ کو بتا دوں کہ ایمان کے ثمرات کیا ہیں اور ایمان کا ظہور کن شکلوں میں ہوتا ہے. ایک تو ایمان کے خارجی ثمرات ہیں اور ایک باطنی. مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ آم کا درخت ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس میں آم ہی لگیں گے‘ لیکن ایمان ایک ایسا درخت ہے جس میں دو طرح کے پھل لگتے ہیں.ایک ظاہری جو نظر آتے ہیں اور ایک باطنی جو نظر نہیں آتے. پہلے ظاہری پھل کی بات کرتے ہیں.

(۱)سمع وطاعت: پہلا ظاہری پھل ہے.یعنی اللہ اور رسول کو مانا ہے تو اب اللہ اور اس کے رسول کی کلی اطاعت بھی کرو. قرآن حکیم میں کئی مقامات پریہ حکم آیا ہے:

وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا
’’سنو اور اطاعت کرو.‘‘

(۲)جہاد فی سبیل اللہ: دوسرا ظاہری پھل ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کرناہے. آگے جہاد کے دو کھاتے ہو جائیں گے: (۱) دعوت یعنی اللہ کے پیغام کو دنیا تک پہنچانا.(۲) اقامت یعنی اللہ کے دین کو قائم کرنا‘ نظامِ الٰہی کو غالب کرنا‘ اس جدوجہد میں تن من دھن لگانا‘ مال اور اپنے جسم و جان کی قوتوں اور صلاحیتوں کو اس میں صرف کرنا. اب یہ چیزیں خارجی ہیں جو نظرآتی ہیں.کسی شخص میں اطاعت ہے یا نہیں‘ نظر آجائے گا. نماز پڑھتا ہے یا نہیں پڑھتا‘ روزہ رکھتا ہے یا نہیں رکھتا‘ حلال و حرام پر کاربند ہے یا نہیں ہے‘تو یہ سب نظر آجائے گا.اسی طرح جہاد کررہا ہے ‘دعوت دے رہا ہے‘ تبلیغ کر رہا ہے ‘ قرآن پڑھ رہا ہے‘ پڑھا رہا ہے‘ سکھا رہا ہے‘ پھیلا رہا ہے‘ پہنچا رہا ہے‘اور ایک جماعتی نظم اور ڈسپلن کے ساتھ اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد میں لگا ہوا ہے تو یہ سب ایمان کے خارجی یا ظاہری ثمرات ہیں.

(۳)تسلیم ورضا: ان کے علاوہ ایمان کے بعض باطنی ثمرات بھی ہیں اور ان میں سب سے پہلی چیز ہے :’’تسلیم و رضا‘‘ یعنی جو کچھ بھی اللہ کی طرف سے آئے بغیر کسی شکوے اور شکایت سے قبول کرو: مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ (التغابن:۱۱’’جو مصیبت بھی تم پر آئی ہے وہ اللہ کے اذن کے بغیر نہیں آئی ہے‘‘. اللہ نے منظوری دی ہے تو یہ دکھ تمہیں پہنچاہے. ابوجہل لاکھ کوشش کے باوجود کسی صحابی کو نہیں مار سکتا تھا اور نہ وہ حضرات سمیہ اور یاسر رضی اللہ عنہماکو شہید کر سکتا تھا اگراللہ کی طرف سے اجازت نہ ہوتی. اگر اذنِ رب نہ ہوتا تو اس کا ہاتھ ہی شل ہو جاتااورکوڑا مارنے کے لیے ہاتھ اٹھا ہی نہ سکتا. چنانچہ اللہ کی جانب سے جوبھی آئے اسے من جانب اللہ سمجھ کر صبر و استقامت سے قبول کرو اور اللہ کی تقدیر پر راضی ہوجاؤ. اس کو کہتے ہیں : ’’راضی برضائے رب‘‘. اس کے بڑے اونچے اونچے مقامات ہیں ‘جو اِس وقت بیان کرنے کا موقع نہیں ہے. ؎

رضائے حق پہ راضی رہ یہ حرفِ آرزو کیسا؟
خدا خالق‘ خدا مالک‘ خدا کا حکم ‘تو کیسا؟

یعنی تم ہوتے کون ہو کہ تم اللہ کو کوئی مشورہ دے سکو . یہ اکبر الٰہ آبادی کا بڑا عارفانہ شعر ہے. اگرچہ مشہور تو وہ مزاحیہ شاعری کے لیے ہیں ‘ لیکن ان کے بہت سے صوفیانہ اشعار بھی ہیں اور یہ شعر بھی بہت کمال کا ہے. ؎

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تیری عادت ہی سہی!

یعنی جو تیرا فیصلہ ہے وہ دل سے قبول ہے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم ہے ‘ ؏ ’’سرتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے!‘‘

(۴)تفویض الامرالی اللہ: اسی کا ایک حصہ تفویض الامر ہے یعنی اپنے معاملے کو اللہ کے حوالے کر دینا. یہ بھی ایک ذہنی اوراندر کی نفسیاتیکیفیت ہے: وَ اُفَوِّضُ اَمۡرِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ ﴿۴۴﴾ (المؤمن) ’’اور میں تو اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کرتا ہوں. اللہ یقینا اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے‘‘.میں کاہے کو چنتا کروں‘ کاہے کو تشویش میں مبتلا ہو جاؤں. میرا رب میری تمام ضروریات کوجانتا ہے.میں نے آپ کو بتایا ہے کہ ایمان کے درجات میں انسان ترقی کرتے کرتے اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں دعا بھی محدود ہو جاتی ہے.دعا صرف یہ رہ جاتی ہے کہ اے اللہ میری ہدایت میں اور اضافہ کر! اے اللہ میرے علم میں اور اضافہ کر! اے اللہ مجھے اپنے ایمان پر استقامت عطا فرما! باقی یہ دعا کہ اے اللہ مجھے یہ دے دے ‘یہ دے دے! اس سے بندۂ مؤمن مستغنی ہو جاتا ہے .اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم اللہ کو سکھا رہے ہو ‘ اللہ کوپڑھا رہے ہو.تمہیں کیاپتا یہ شے تمہارے حق میں ٹھیک بھی ہے یانہیں: وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۱۶﴾٪ (البقرۃ) ’’اورہو سکتا ہے کہ تم کسی شے کو ناپسند کرواور وہ تمہارے لیے بہتر ہو.اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو درآنحالیکہ وہی تمہارے لیے بری ہو.اور اللہ جانتا ہے‘ تم نہیں جانتے‘‘. چنانچہ اپنے معاملات کو اللہ کے حوالے کردو ‘کیونکہ وہ بہتر جاننے والا ہے.

تفویض الامرایمان کاباطنی ثمرہے اور اس کے لیے ایک بہت پیاراشعر ہے: ؎

کارسازِ ما بہ فکر کارِ ما
فکر ما در کارِ ما آزارِ ما

میرا کارساز خود میرے معاملے کی فکر کر رہا ہے تو مجھے فکر کی کیا ضرورت ہے.جب میں اپنے معاملات میں خود غور و فکر کر کے نتیجہ نکالتا ہوں تو وہ اُلٹا پڑتا ہے اور میرے لیے باعث تکلیف ہو جاتا ہے .تو اس کا حل یہی ہے کہ میں اپنے معاملات کو اللہ کے حوالے کر دوں ہم پچھلی حدیث میں پڑھ چکے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہجب میرا بندہ اپنے کسی بھائی کے کام میں لگا ہو تو میں اس کے کام میں لگ جاتا ہوں. چنانچہ آپ اللہ کے کام میں لگ جایئے ‘اللہ کے دین کے لیے تن من دھن لگا دیجیے تواللہ آپ کے سارے کام پورے کرے گا.

(۵)توکل علی اللہ: ایمان کے باطنی ثمرات میں سے ایک توکل علی اللہ ہے‘ یعنی کسی مادی ذریعے اورسبب پر کوئی اعتماد اور توکل نہ رہے ‘سوائے اللہ کے جو مسبب الاسباب ہے. حضور سے بھی فرمایا گیا تھا : وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ۫ (الکہف) ’’اور کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کریں کہ میں یہ کام کل ضرور کر دوں گا‘مگر یہ کہ اللہ چاہے!‘‘کسی بھی کام کے ارادے کے ساتھ ان شاء اللہ کہنا چاہیے ‘یعنی اگر اللہ نے چاہا تو میں یہ کام کروں گا. ایک شخص کہتا ہے کہ کل صبح میرا فلاں جگہ جانے کا ارادہ ہے اور میں نے گاڑی بھی تیار کر رکھی ہے ‘ اس کی سروس بھی ہو گئی ہے‘ ٹیوننگ بھی ہو گئی ہے‘ پٹرول کی ٹینکی بھی بھری ہوئی ہے‘ بس صبح اٹھوں گا اور چل دوں گا.گویا وہ بھول گیا کہ اس کے ارادے اور بالفعل کام کے ہونے کے درمیان بھی بہت سے مراحل ہیں. جیسے انگریزی میں کہا جاتا ہے: 

There is many a slip between the cup and the lip. 

اہل مکہ نے یہودیوں کے سکھانے پر رسول اللہ سے تین سوال کیے تو حضور نے فرمایا کہ ان کا جواب میں کل دے دوں گا.اس موقع پر آپؐ نے سہواً ’’ان شاء اللہ‘‘ نہیں فرمایا. آپؐ کے ذہن میں تھا کہ جبریل علیہ السلام روزانہ تو آتے ہیں‘ ان سے پوچھ لوں گا اور جواب دے دوں گا‘مگر وہ نہیں آئے تو صورتِ حال یہ بنی کہ تالیاں پٹ رہی ہیں‘ طنزیہ باتیں ہو رہی ہیں‘طعنے دیے جارہے ہیں کہ کہاں ہے جواب؟ غالباً تین دن کے بعد جبرائیل ؑجوابات لے کر آئے ‘ لیکن ساتھ ہی یہ آیت بھی نازل ہوئی : وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ۫ کہ آئندہ کسی چیز کے لیے کبھی نہ کہیے گاکہ میں کل ضرور کردوں گا مگر ساتھ ان شاء اللہ بھی کہیں. چنانچہ اعتماد اور بھروسہ نہ اپنی قوت و صلاحیت اور ذہانت وفطانت پر ہو‘ نہ مادی اسباب ووسائل پر‘ بلکہ اللہ عزوجل پر ہو. اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مادی ذرائع اوروسائل استعمال نہ کیے جائیں‘بلکہ بھرپور طور پر استعمال کرو. بیمار پڑ جاؤ تو لازماً علاج کراؤ‘یہ سنت ہے ‘لیکن یہ نہ سمجھو کہ اس علاج سے شفاہو گی‘بلکہ یہ عقیدہ رکھو کہ شفااللہ تعالیٰ دے گا.مجھے اپنے بچپن کے حالات یادہیں. اب تو ہمارا کلچر بہت تبدیل ہو چکا ہے‘ جبکہ ہماری بڑی بوڑھی عورتیں بچوں کو دوائی پلاتے ہوئے کہتی تھیں: ’’اللہ شافی ‘اللہ کافی !‘‘کہ شافی تو اللہ ہے اور وہی کافی ہے. بہرحال علاج کرانا سنت ہے‘ لیکن اس حد تک چلے جانا کہ لاکھوں روپے خرچ کر کے علاج کے لیے انگلستان جارہے ہیں‘یہ رویہ بھی صحیح نہیں ہے‘بلکہ مناسب یہ ہے کہ اپنے ذرائع میں رہتے ہوئے آپ ایک حد تک علاج کرایئے اورساتھ یہ یاد رکھیے کہ شفا تو اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے. گویا اللہ شافی‘ اللہ کافی!

(۶)اللہ اور رسولؐ سے محبت: اسی میں اب تین چیزیں اور شامل کر لیجیے ‘جن میں سب سے پہلی چیزمحبت ہے: وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕ (البقرۃ:۱۶۵’’اور جو لوگ واقعتاصاحب ِایمان ہوتے ہیں ان کی شدید ترین محبت اللہ کے ساتھ ہوتی ہے‘‘. یعنی اللہ کے ساتھ شدید ترین محبت ہو ‘اور پھر اس محبت میں رسول کو بھی بریکٹ کیاگیاہے. فرمایا: 

قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ 
(التوبۃ:۲۴’’ (اے نبی  !ان سے)کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ ‘تمہارے بیٹے‘ تمہارے بھائی‘تمہاری بیویاں (اور بیویوں کے لیے شوہر)‘تمہارے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے بہت محنت سے کمائے ہیں ‘اور وہ تجارت جس کے مندے کا تمہیں خطرہ رہتا ہے ‘اور وہ مکانات جو تمہیں بہت پسند ہیں ‘( اگر یہ سب چیزیں) تمہیں محبوب تر ہیں اللہ‘اُس کے رسول اور اُس کے راستے میں جہاد سے‘ تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے.‘‘

لہٰذا اللہ اور اُس کے رسول کی شدید ترین محبت دل میں موجود ہو اور پھر اس محبت میں اللہ کے لیے جہاد کی محبت بھی شامل ہونی چاہیے. 

(۷)محبت کے ساتھ حمیت: یاد رکھیے کہ یہ محبت صرف حمد کے ترانوں اور نعت کے لہک لہک کے پڑھنے میں نہیں ہے. اس محبت کے ساتھ دوسرا پہلو حمیت بھی ہوتا ہے کہ اللہ کا دین پامال ہے اور میں اپنے دھندوں میں لگا ہوا ہوں تووہ حمیت کہاں گئی‘ع ’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘ .اسی بارے میں وہ حدیث آتی ہے جسے حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 
اَوْحَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَ اِلٰی جِبْرِِیْلَ ں اَنِ اقْلِبْ مَدِیْنَۃَ کَذَا وَکَذَا بِاَھْلِھَا ‘ قَالَ : یَا رَبِّ اِنَّ فِیْھِمْ عَبْدَکَ فُلَانًا لَمْ یَعْصِکَ طَرْفَۃَ عَیْنٍ ‘ قَالَ: فَقَالَ: اِقْلِبْھَا عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ‘ فَاِنَّ وَجْھَہٗ لَمْ یَتَمَعَّرْ فِیَّ سَاعَۃً قَطُّ 
(۱

’’اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو وحی کے ذریعے سے حکم دیا کہ فلاں فلاں شہروں کو اس کے رہنے والوں پر الٹ دو (تلپٹ کر دو‘ جیسے کہ سدوم اور عامورہ کی بستیوں کے ساتھ کیا گیا‘ جہاں حضرت لوط ں کو بھیجا گیا تھا). اس پر جبرائیل ؑنے عرض کیا : اے رب! ان لوگوں میں تو تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے جتنی دیر بھی تیری معصیت میں بسر نہیں کی. حضور فرماتے ہیں اس پر اللہ نے فرمایا : الٹو اس بستی کو پہلے اس (بدبخت) پر‘ پھر دوسروں پر‘ اس لیے کہ (وہ اتنا بے غیرت اور بے حمیت انسان ہے کہ) میری وجہ سے کبھی اس کے چہرے کی رنگت تک نہیں بدلی.‘‘ (۱) رواہ البیھقی فی شعب الایمان یعنی میرے احکام کی دھجیاں بکھرتی رہیں‘ میری حدود پامال ہوتی رہیں اور یہ اللہ اللہ کرتا رہا‘ اپنے مراقبے‘ اپنے چلے اور اپنے اذکار میں لگا رہا .اسی کے لیے تو اقبال نے کہا تھا ؎

مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے!

(۸)محبت اور حمیت کے ساتھ نصرت بھی: محبت اور حمیت کے علاوہ تیسری چیز نصرت ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ (الصف:۱۴’’اے اہل ایمان! اللہ کے مددگار بنو‘‘. اللہ (معاذاللہ!) ضعیف نہیں ہے کہ اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہو‘وہ تو القوی ہے‘ لیکن تمہارا امتحان ہے کہ اس کا دین جب پامال ہے تواسے قائم کرنے کے لیے تن من دھن لگاتے ہو کہ نہیں؟دین کو قائم اور غالب کر دینا ہمارے بس میں نہیں ہے‘لیکن اس جدوجہد میں تن من دھن لگا دینا تو ہمارے بس میں ہے نا!تو بس یہی کامیابی ہے.دیکھئے‘کتنے ہی نبی آئے اور چلے گئے کہ ان کے ہاتھوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئی‘ کوئی انقلاب برپانہیں ہوا. اُن کی شب وروز کی اَن تھک محنت کے باوجود صرف چند لوگوں نے مانا اور باقی سب ہلاک کر دیے گئے. انقلاب تو آیا ہے جاکرحضوراکرم کے دست مبارک سے اور آپ ؐ کے دورِ مبارک میں اللہ کا نظام صحیح معنوں میں غالب ہوا ہے: وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۱﴾ (بنی اسرائیل) ’’اور آپؐ کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا.یقینا باطل ہے ہی بھاگ جانے والا‘‘.یہ حضور کی تکمیل رسالت کا سب سے بڑا مظہر ہے. اب اللہ کے دین کو غالب کرنے میں تن من دھن لگانا‘ اللہ کی نصرت کے مترادف ہے‘ جو ایمان کا لازمی تقاضا ہے.