یہ تو زیر مطالعہ حدیث کا پہلا حصہ تھا‘اب اس کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں جس میں ایک عظیم مسئلہ سامنے آ رہا ہے جس کا سمجھنا بہت ضروری ہے. اس حدیث میں تقرب الی اللہ کے دو مراحل بیان کیے گئے ہیں. پہلے اس حصہ پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ اَحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَـرَضْتُہٗ عَلَـیْہِ ’’میرا بندہ میرے فرض کردہ امور کے سوا کسی اور چیز کے ذریعے میرے زیادہ قریب نہیں آ سکتا‘‘.تقرب ‘ باب تفعل ہے‘چنانچہ اس کا معنی ہو گا کہ اَن تھک محنت اور مسلسل جدوجہد کے ساتھ کوئی چیز حاصل کرنا. ترجمہ یہ ہو گا کہ میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے ‘اُن میں مجھے محبوب ترین وہ ہیں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں.دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ : وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَـیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّـہٗ ’’اور بسا اوقات میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کر تا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں‘‘ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ ’’پس جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے‘‘. اب یہ بہت نازک اور حساس موضوعات ہیں‘ لہٰذا انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے ؏ ’’ہشدار کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را!‘‘یعنی اس راستے پر خبردار ہو کر چلنا کہ اب تمہارا پاؤں تلوار کی دھار پر آ گیا ہے !آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُـبْصِرُ بِہٖ ’’اور اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے‘‘ وَیَدَہُ الَّـتِیْ یَبْطِشُ بِھَا ’’اور اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے‘‘ ( (وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا ’’اور اُس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے.‘‘ اللہ اکبر!ان سب کا کیا مطلب ہے اور ان سب کو کون سمجھے گا کہ اللہ بندے کے کان‘آنکھ‘ہاتھ‘حتیٰ کہ پاؤں بن جاتا ہے؟ بس یہ سمجھ لیجیے کہ اس کے مطالب ومفاہیم سے جو اہم نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ حدیث ِکرامت اولیاء کے لیے سند ہے.