اس ضمن میں پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اللہ سے تقرب کے معنی کیا ہیں؟کیا اللہ کہیں دور ہے؟نہیں ‘وہ تو رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے. سورۂ ق کی یہ آیت ابتدا میں‘ میں نے آپ کو سنا ئی تھی:
وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ وَ نَعۡلَمُ مَا تُوَسۡوِسُ بِہٖ نَفۡسُہٗ ۚۖ وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ ﴿۱۶﴾ ’’ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس اندر سے کیا وسوسہ اندازی کرتا رہتا ہے.اورہم اس کے قریب تر ہیں اس کی رگِ جاں سے بھی.‘‘
یعنی اس کا نفس امارہ ہم ہی نے بنایا ہے‘اور ساری مادی خواہشات اور سارے جبلی تقاضے
(animal instincts) ہم ہی نے نفس کے اندررکھے ہیں ‘کیا ہمیں ہی نہیں معلوم ہے؟کیا گھڑی ساز کو نہیں پتا کہ گھڑی میں کون کون سے پرزے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ اللہ تو ہم سے بہت قریب ہے‘ہماری رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے‘لیکن غور طلب بات یہ کہ ہم اللہ سے دور ہیں. بہت پیارے اشعار ہیں:
کرا جوئی‘ چرا در پیچ و تابی؟ کہ او پیداست تو زیر نقابی
تلاشِ او کنی‘ جز خود نہ بینی تلاشِ خود کنی‘ جز او نہ یابی!
’’کیا ڈھونڈتے ہو؟ کیوں (ہر وقت) پیچ و تاب میں رہتے ہو. کہ (جس کی تلاش ہے) وہ تو (ذرّے ذرّے سے) عیاں ہے اورتو خود ہی پردے میں (محجوب) ہے. (اگر) اس کو تلاش کرے گا تو اپنے سوا کچھ نہ دیکھے گا‘ (اور اگر) اپنی تلاش کرے گا تو اس کے سوا کوئی اور نہ ملے گا.‘‘
یعنی گھنے جنگلوں‘ غاروں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کسے ڈھونڈ رہے ہو؟یہ پیچ و تاب تمہارے اندر کیا ہے اور تم ذات و صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں فلسفہ اور عقل کے گھوڑے کیوں دوڑا رہے ہو؟ وہ تو سامنے ہے ‘ مگر تمہاری آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے‘ زیرنقاب تو تم ہو. یہی وجہ ہے کہ شیخ علی بن عثمان جلابی ہجویری ثم لاہوری رحمہ اللہ علیہ کی کتاب جو تصوف کی اولین اور امہات الکتب میں سے ہے‘اس کا نام ہی: ’’کشف المحجوب‘‘ ہے یعنی حجابات اور پردوں کا ہٹ جانا. چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ حجاب میں توہم آئے ہوئے ہیں ‘جبکہ وہ تو ہر جگہ ہے. قرآن نے فرمایا:
وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ(الحدید:۴) ’’تم جہاں بھی ہوتے ہو‘وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے.‘‘ ان الفاظ کی ایک تاویل یہ کی گئی کہ وہ صفاتی طو رپرہر جگہ موجود ہے اور ہماری ہر بات کو سن رہا ہے اور ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے.لیکن یہ تاویل ان الفاظ کا حق ادا نہیں کر رہی. وہ ہمارے ساتھ کیسے ہے؟ یہ ہم نہیں جانتے ‘ لیکن وہ ہمارے ساتھ ہر جگہ‘ ہر آن موجود ہے. اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت کو ہم نہیں جانتے‘ یہ ہماری مجبوری ہے. اللہ دیکھتا ہے‘ لیکن کیسے دیکھتا ہے یہ ہم نہیں جانتے. اُس کا دیکھنا اس خارجی نور کا محتاج نہیں جس کے ہم محتاج ہیں. اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ وہ سنتا ہے‘ لیکن کیسے سنتا ہے یہ ہم نہیں جانتے. وہ ہمارے ساتھ ہے ‘اس میں کوئی شک نہیں‘ لیکن کیسے ہے ‘یہ ہم نہیں جانتے.