تقرب کا اصل مفہوم ہے اللہ کی طرف باطنی طور پر بڑھنا اور بڑھنے کے لیے بھی کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے‘وہ آپ کے اندر ہی ہے. میں نے آپ کو عبدالقادر دہلویؒ کاشعر سنایا تھا:

ستم است گر ہوست کشد کہ بہ سیر سرو وسمن در آ
تو ز غنچہ کم نہ دمیدۂ درِ دل کشا بہ چمن در آ!

یعنی بڑے ستم کی بات ہے کہ تمہاری خواہش نفس تمہیں کہے کہ چلوبھئی ذرا باغ میں جا کر دیکھو کہ کتنے اچھے اچھے پھول ہیں‘کتنا اچھا سبزہ ہے. ارے تم خود کسی غنچہ سے کم دمکتے ہوئے نہیں ہو‘ تم تو اللہ کی تخلیق کا ذروۂ سنام ہو.ذرا کبھی اپنے دل کے دروازے کھولو اور اپنے اندر کے باغ میں داخل ہو کر اس کی سیر کرو‘ ؏ ’’اپنے من میں جا کر پاجا سراغ زندگی!‘‘ اللہ کہیں دُور نہیں ہے‘وہ تو تمہارے اندر ہی ہے‘لیکن تم ہی اس کی طرف متوجہ نہیں ہو. تمہاری ساری توجہ دنیا کی طرف ہے‘ تمہاری ساری بھاگ دوڑ‘ تمہاری ساری سوچ بچار دنیا کے لیے ہے اور تم اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے: ؎

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہ روِ منزل ہی نہیں!

حدیث میں آتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ سمائے دنیا تک اتر آتا ہے. کیسے اُتر آتا ہے؟یہ ہم نہیں جانتے. قیامت کے دن اللہ اس زمین پر نزول فرمائے گا : وَّ جَآءَ رَبُّکَ وَ الۡمَلَکُ صَفًّا صَفًّا ﴿ۚ۲۲﴾ (الفجر) ’’اور آپ کا رب جلوہ فرما ہو گا جب کہ فرشتے قطار در قطار حاضر ہوں گے‘‘.میدانِ قیامت اسی زمین پر ہو گا‘گویا قصہ زمین‘برسرزمین طے ہوگا.سورۃ الحاقہ میں نزولِ رب کی منظر کشی بایں الفاظ کی گئی ہے: وَّ الۡمَلَکُ عَلٰۤی اَرۡجَآئِہَا ؕ وَ یَحۡمِلُ عَرۡشَ رَبِّکَ فَوۡقَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ ﴿ؕ۱۷﴾ ’’اور فرشتے ہوں گے اس کے کناروں پر ‘ اور اس دن آپ کے ربّ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے آٹھ فرشتے‘‘.اللہ تعالیٰ فرشتوں کے جلومیں نزول فرمائے گا ‘پھر عدالت خداوندی لگے گی‘حساب کتاب ہو گا.یہ سب ہوگا‘لیکن کیسے ہوگا یہ ہم نہیں جانتے.

اس اعتبار سے صحیح طرزِعمل یہ ہے کہ ہم اپنے باطن میں جھانکیں‘جہاں دل ہے اور دل کی گہرائیوں میں روح ہے جس کا تعلق براہِ راست اللہ کی ذات کے ساتھ ہے. ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اُس روح کی طرف ہماری کوئی توجہ نہیں ہے‘ہماری ساری توجہ جسد مادی ‘ اس کے تقاضوں اور اس کی ضروریات کی طرف ہے اور ہم اسی میں مصروف ہیں‘جبکہ روح کی طرف متوجہ ہو کر انسان اُس ذات کا تقرب حاصل کرسکتا ہے‘جس کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا: ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ (الحدید:۳’’وہی اوّل ہے ‘وہی آخر ہے ‘وہی ظاہر ہے ‘وہی باطن ہے‘‘.ظاہر ہستی تو اسی کی ہے اورہاں سب سے مخفی بھی وہی ہے ‘اس لیے کہ اُس کی ذات کی کنہ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا.وہ کیسے دیکھتا ہے ‘تم نہیں جان سکتے. اس کا ہاتھ ہے ‘لیکن تم اسے اپنے ہاتھ پر قیاس نہ کر بیٹھنا. اسی طرح میدانِ محشر میں اللہ تعالیٰ کی تجلی کے بارے میں کہا گیا ہے : یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ (القلم:۴۲)’’جس دن پنڈلی کھولی جائے گی‘‘ لیکن اس کا مفہوم ہمارے تصور سے ماوراء ہے. اگر ہم اس کی کھوج کرید میں پڑ جائیں اوراس بارے میں بحث کریں تو ہم گمراہی میں مبتلا ہو جائیں گے.

اب تک کی میری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں قرب سے مراد قربِ مکانی نہیں‘ قربِ معنوی ہے. سورۃ العلق کی آخری آیت میں نے شروع میں پڑھی تھی: کَلَّا ؕ لَا تُطِعۡہُ وَ اسۡجُدۡ وَ اقۡتَرِبۡ ﴿٪ٛ۱۹﴾ ’’کوئی بات نہیں!(اے نبی ) آپ اس کی بات نہ مانیے‘ آپ سجدہ کیجیے اور (اللہ سے اور)قریب ہو جایئے!‘‘اس میں رسول اللہ سے کہا جارہا ہے کہ آپؐ ابوجہل وغیرہ کی باتیں نہ مانیے‘آپ توجہ ہی نہ دیجیے ان کی باتوں پر اور دفع کیجیے ان کو‘ آ پ بس سجدہ کیجیے اور قریب ہو جایئے. اسی طرح حدیث میں آتا ہے : اَقْرَبُ مَا یَکُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّہِ وَہُوَ سَاجِدٌ (۱’’سجدے کی حالت میں بندہ اللہ سے قریب ترین ہوتا ہے!‘‘اب ایک سجدہ ظاہری ہے کہ جسم تو جھک گیا ہے لیکن نفس امارہ جوں کا توں شیطانِ لعین کی طرح کھڑا ہے کہ میں سجدہ نہیں کروں گا.اس طرح یہ سجدہ تو تمہارے اعضاء و جوارح کا سجدہ ہے‘ دل کا سجدہ نہیں ہے . لیکن جب پوری ہستی کے ساتھ اللہ کے سامنے سجدہ کرو گے تو یہ اللہ کے ساتھ قریب ترین معاملہ ہو گا.