اب ہم ایک بہت نازک اور حساس موضوع کی طرف آ رہے ہیں کہ اس قرب کا اللہ کے ساتھ کس حد تک معاملہ ہو سکتا ہے.یہ حدیث صحیح بخاری کی نہ ہوتی تو ہمارے ہاں خاص طور پروہ لوگ جن کے اندر توحیدکا زیادہ ذوق اور جذبہ ہے اور ان کے اندر شرک سے زیادہ نفرت ہے‘وہ کبھی بھی اس حدیث کو نہ مانتے. اس لیے کہ اس میں وہ کیفیت بیان ہو رہی ہے جو علامہ اقبال نے ایک شعر میں کہی ہے : ؎

مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو
پلا کے مجھ کو مئے لا الٰہ الا ھو

یعنی میرے ساقی نے مجھے لا الٰہ الا ھو کی جو شراب پلائی ہے تو اس سے میں اور تو کا فرق ختم ہو گیا ہے.یہ بہت خطرناک مقام ہے ؏ ’’ ہشدارکہ رہ بر دم تیغ است قدم را!‘‘ ہوشیار ہوجاؤ‘کہ اب تمہارے قدم تلوار کی دھار پر ہیں‘لہٰذا پھونک پھونک کے قدم رکھو. اس معاملہ میں بے احتیاطی بدترین شرک کی طرف بھی لے جا سکتی ہے.

جیسا کہ ہم پڑھ چکے ہیں‘ زیر مطالعہ حدیث میں قربِ الٰہی کے حصول کے دو راستے بیان کیے گئے ہیں اوراس حوالے سے یہ حدیث حکمت کا بہت بڑا خزانہ ہے.پہلا راستہ ہے : مَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ اَحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَـرَضْتُہٗ عَلَـیْہِ ’’میرا بندہ میرے فرض کردہ امور کے سوا کسی اور چیز کے ذریعے میرے زیادہ قریب نہیں آ سکتا‘‘. اس کو ہم’’ تقرب بالفرائض‘‘ کا نام دیں گے.یعنی جو اعمال ہم پر فرض کیے گئے ہیں ان کے ذریعے سے ہم اللہ کا قرب تلاش کریں تو یہ اللہ کومحبوب ترین ہے. دوسری بات بلند ترین ہے اور وہ یہ ہے کہ: وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَـیَّ بِالنَّوَافِلِ ’’اور نہیں مصروف رہتامیرا بندہ میرا قرب حاصل کرنے میں نوافل کے ذریعے سے‘‘ حَتّٰی اُحِبَّـہٗ ’’یہاں تک کہ (ایک مقام آتا ہے کہ) میں اسے محبوب بنا لیتا ہوں‘‘.آگے حساس ترین بلکہ خطرناک ترین بات آ رہی ہے : فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ ’’جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اپنے بندے کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے‘‘ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ ’’اور اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے‘‘ وَیَدَہُ الَّـتِیْ یَبْطِشُ بِھَا ’’اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ‘‘اور آگے چلیے: وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا ’’اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے‘‘. وَاِنْ سَاَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّہٗ ’’اگر وہ مجھ سے کوئی سوال کرے تومیں اسے لازماً دوں گا‘‘ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیْذَنَّہٗ ’’اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرے گا تو میں لازماً اسے پناہ دوں گا‘‘.یہاں تواس انتہا درجے کا قرب ہے کہ گویا من و تو کا معاملہ ختم ہو گیا !

ظاہر بات ہے کہ یہ موضوع مسلمان صوفیاء کا ہے‘ یہ فقہاء کا میدان نہیں ہے.یہ مضامین تصوف کے عنوان سے بیان ہوتے ہیں. اگرچہ میں نے اپنی تقریر میں تصوف کی نفی اس اعتبار سے کی ہے کہ تصوف کا ذکر نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں. یہ بالکل نئی اصطلاح ہے اور اس نئے عنوان کے ساتھ بہت سی نئی چیزیں بھی اسلام میں آ کر شامل ہو گئی ہیں‘لیکن ایک حقیقی تصوف بھی ہے (جس کے لیے حدیث میں لفظ ’’احسان‘‘ آیا ہے) اور وہ ہے اللہ کا قرب‘ مزید قرب‘ مزید قرب.جیسے ہم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی حدیث تفصیل سے پڑھی تھی. سفر تبوک میں جاتے ہوئے صبح کے وقت جب وہ جاگ رہے تھے اور اپنی اونٹنی رسول اللہ کی اونٹنی کے پیچھے پیچھے لگائے چلے آ رہے تھے‘ جبکہ باقی سب لوگ اونگھ رہے تھے اور ان کی اونٹنیاں اِدھر اُدھر منتشر ہو گئی تھیں. چرتی بھی جا رہی تھیں اور چلتی بھی جا رہی تھیں. اسی دوران حضرت معاذؓ کی اونٹنی نے ٹھوکر کھائی‘ معاذؓ نے اس کو لگام کھینچ کر سنبھالا تو وہ اور تیز ہو گئی اور اس کی وجہ سے آپ کی اونٹنی بھی بدک گئی. اس پر حضور نے اپنا پردہ اٹھایا اور دیکھا کہ آس پاس معاذؓ کے سوا کوئی بھی نہیں ہے. معاذ چونکہ قریب تھے تو آپ نے فرمایا: اُدْنُ دُوْنَکَ ’’اور قریب آ جاؤ‘ اور قریب آجاؤ‘‘. تو وہ اتنے قریب ہو گئے کہ دونوں کی اونٹنیاں آپس میں رگڑ کھا نے لگیں.اسی طرح حقیقی تصوف یہ ہے کہ اللہ سے اور قریب ‘ اور قریب ہو جاؤ.یہ تقرب اولیاء اللہ کو نصیب ہوتا ہے جن کے بارے میں زیرمطالعہ حدیث کے شروع میں فرمایاگیا: مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِــیًّا فَـقَـدْ آذَنْـتُہٗ بِالْحَرْبِ ’’جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی رکھی تو اس کے خلاف میرا اعلانِ جنگ ہے.‘‘