دوسری بات سمجھنے کی یہ ہے کہ قربِ الٰہی کے ان ذرائع میں سے بلند تر مقام کون سا ہے؟میں نے کئی مرتبہ جہاد کی مثال دی ہے کہ جہاد شروع ہوتا ہے اپنے نفس کے خلاف جہاد سے‘چنانچہ نفس کے خلاف جہاد اہم ترین ہے‘اسی لیے اسے افضل کہا گیا ہے.رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا: اَیُّ الْجِھَادِ اَفْضَلُ؟ ’’کون سا جہاد افضل ہے؟‘‘تو آپ ؐ نے فرمایا: اَنْ تُجَاھِدَ نَفْسَکَ فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہِ کہ تم اپنے نفس کے خلاف جہاد کرو اور اسے اللہ کا مطیع بناؤ.میں نے اپنے کتابچہ’’ جہاد فی سبیل اللہ ‘‘میں جہاد کی نو(۹) منزلیں بیان کی ہیں اور نویں منزل قتال فی سبیل اللہ ہے. چنانچہ جہاد کا اعلیٰ ترین اوربلند ترین مقام قتال فی سبیل اللہ ہے‘لیکن جہاد کا اہم ترین مقام نفس کے خلاف جہاد ہے. یاد رکھیے کہ پہلی منزل کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے ‘اس لیے کہ پہلی منزل ہوگی تودوسری بنے گی‘دوسری ہو گی توتیسری بنے گی‘اسی طرح تیسری‘ چوتھی‘پانچویں‘چھٹی‘ساتویں‘ آٹھویں‘لیکن بلند ترین مقام یہ ہے کہ انسان اللہ کے دین اور اس کے کلمے کی سربلندی کے لیے‘ روئے ارضی پر اس کی حکومت کو قائم کرنے کے لیے نقد جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میںآجائے. یہ اعلیٰ ترین اور اہم ترین مقام ہے. اسی طرح یہاں پر ترتیب ہے کہ تقرب بالفرائض محبوب ترین ہے‘لیکن تقرب بالنوافل کا مقام اتنا بلند ہے کہ اس سے اونچا مقام تو کوئی ہو نہیں سکتا ‘لیکن یہ تقرب بالنوافل فرائض کے بعد ہے. فرائض کو نظرانداز کر کے‘فرائض کو ترک کر کے نوافل کا کوئی مقام نہیں. چلہ کشیاں ہو رہی ہیں‘ نفس کے خلاف جہاد ہو رہا ہے‘جبکہ باطل کا غلبہ ہے اوراس کے خلاف کوئی کام آپ کر نہیں رہے‘اللہ کا دین پامال ہے اوراس کے خلاف کوئی جدوجہد نہیں‘ کوئی حمیت نہیں‘ کوئی غیرت ہی نہیں ہے تو ایسے نوافل کا کوئی مقام نہیں ہے.