نوٹ کرنے کی تیسری بات یہ ہے کہ اقامت دین کی جدوجہد فرض ہے . اصل بات یہ ہے جو ہمارے ذہنوں سے نکل گئی ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد رفتہ رفتہ اسلام کا تصور بحیثیت دین کمزور ہوتا چلا گیا‘یہاں تک کہ عالم اسلام پر اغیار قابض ہو گئے‘ کہیں انگریز آگئے‘ کہیں فرانسیسی آ گئے. مسلمانوں کی حکومت تھی تو کم سے کم قاضی اور مفتی تو ہوتے تھے اور فیصلے تو اسلامی قانون کے مطابق ہوتے تھے‘لیکن انگریز کے آنے سے یہ سب ختم ہوگیا اور اسلامی قانون بھی ختم ہوگیا.اب تو پینل کوڈ ان کا ہے‘ سول کوڈ ان کا ہے‘کریمنل پروسیجر کوڈ سب ان کا ہے.سب دیوانی اور فوجداری قوانین ان کے ہیں. اسی طرح ہوتے ہوتے ہمارا ذہن یہاں پر آ کر منجمدہو گیاکہ بس یہ چیزیں اصل دین ہیں : نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی ‘سور نہیں کھانا‘ شراب نہیں پینی‘ زنا نہیں کرنا. باقی اقامت دین کی جدوجہد کا تصور توعلماء میں بھی نہیں ہے.اس کی فرضیت کا اعلان تو بہت دور کی بات ہے‘ وہ تو اس کا تذکرہ تک نہیں کرتے.مفتی اور خطیب تو سینکڑوں ہزاروں نکل رہے ہیں لیکن معاشرے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے.ہاں ٹھیک ہے نئی نئی مسجدیں بنتی ہیں تو نئے نئے خطیب بھی چاہئیں.بس آبادی بڑھ رہی ہے‘ مسجدیں بن رہی ہیں‘لیکن دین کی اقامت کہاں ہے؟ بہرحال اب کچھ تبدیلی آ رہی ہے‘ دینی مدارس کے اندر یہ لہر اب اٹھ رہی ہے‘ مگر بدقسمتی سے اقامت دین کا منہج اور طریقہ کارجو حضورﷺ کا تھا‘وہ اب بھی سامنے نہیں ہے. کوئی الیکشن کی طرف چلا گیا ‘کوئی صرف وعظ و نصیحت ہی کرتا چلا گیا‘کسی نے ہتھیاراٹھا لیے یا حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے کچھ اورحربے استعمال کیے. یاد رکھیے کہ اللہ کا دین غالب ہوکر رہے گا‘لیکن ہو گا صرف طریقہ محمدیﷺ سے.