ان تین چیزوں میں سے پہلی نسیان اور دوسری خطا ہے ‘اور اس کے ضمن میں‘میں نے جو پہلی آیت پڑھی تھی وہ سورۃ البقرۃ کی آخری آیت ہے اوراس کا شمار قرآن مجید کی بڑی عظیم آیات میں ہوتاہے. اس آیت میں پہلے تو ایک بہت بڑی خوشخبری ہے اور یہ مضمون قرآن مجید میں کئی اور مقامات پر بھی آیا ہے‘فرمایا: لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ ’’اللہ تعالیٰ ذمہ دار نہیں ٹھہرائے گا کسی بھی جان کو‘ مگر اس کی وسعت کے مطابق‘‘. یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں سب کا حساب ایک جیسا اور برابر نہیں ہوگا‘ بلکہ ہر ایک کا حساب ہو گا اس کی صلاحیت‘ اس کی قدرت اور اس کی طاقت کے مطابق جو اللہ نے اسے دی ہے. اگر کسی کی وسعت کم ہے تو محاسبہ بھی ہلکا ہوگااور اگر وسعت زیادہ ہے‘ صلاحیت زیادہ ہے‘ ذہانت زیادہ ہے‘ جسمانی قدرت زیادہ ہے تو حساب بھی اتنا ہی سخت ہو گا.دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی خوشخبری ہے ‘اس لیے کہ دنیا کا قانون یہ نہیں دیکھتا کہ جس نے چوری کی ہے اس کی کیا مجبوری تھی اوردنیا کا قانون اس کو دیکھ بھی نہیں سکتا‘ لیکن اللہ کا معاملہ یہ نہیں ہے. ہرشخص کے اندر جو بھی وسعت ہے‘ اسے اللہ جانتا ہے. کسی شخص میں اللہ نے صرف بیس سیر بوجھ اٹھانے کی قوت رکھی تھی اور اس نے پندرہ سیر بھی اٹھا لیا تو اللہ اسے کامیاب قرار دے دے گا‘لیکن جس میں من بھر کی صلاحیت رکھی تھی اُس نے بیس سیر بھی اٹھا لیا تو وہ ناکام ہو گیا. گویا یہاں کوئی فلیٹ ریٹ نہیں ہے. اسی لیے فرمایا: لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ کہ کوئی جان بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرائی جائے گی‘ مکلف نہیں ٹھہرائی جائے گی مگر اس کی وسعت کے مطابق. اس حوالے سے ایک شیطانی وسوسہ یہ ذہنوں میں آتا ہے کہ آدمی دین کے معاملے میں یہ کہہ کر بری ہو جاتا ہے کہ میرے اندر صلاحیت ہی نہیں ہے.اس صورت میں دیکھنا ہوگا کہ دنیوی معاملات میں اس شخص کی کتنی صلاحیت ظاہر ہو رہی ہے. اگر انسان میںصلاحیت نہیں ہے تو دنیا میں بھی کامیابی نہیں ہونی چاہیے. دنیا میں آپ آگے سے آگے جا رہے ہوں اور دین کے معاملے میں آپ یہ کہہ دیں کہ میرے اندر صلاحیت نہیں‘تویہ سراسردھوکہ ہے.اللہ جانتا ہے کہ اُس نے کس میں کتنی صلاحیت رکھی ہے اور پھر اسی کے حساب سے معاملہ ہو گا. بس اپنی امکانی حد تک آدمی کر گزرے‘یہ کافی ہے‘ اس لیے کہ اللہ کومعلوم ہے کہ ہم نے کیا دیا تھا‘ کتنی قوت‘ کتنی ذہانت‘ کتنی صلاحیت ہم نے دی تھی.لیکن شیطان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے اور اپنے آپ کو دین کے معاملات میں بری نہیں سمجھنا چاہیے کہ میرے پاس وسعت اور ذہانت نہیں ہے.اس بارے میں یہ دیکھا جائے گا اگر آپ دنیا میں کامیاب ہیں‘آپ کی تجارت پروان چڑھ رہی ہے‘ پھل پھول رہی ہے یا آپ اپنے پیشے کے اندر دن بدن ترقی کر رہے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ آپ میں صلاحیت موجودہے. ایسی صورتِ حال میں عدم صلاحیت کا عذر رکھ کر اپنے آپ کو دین کے معاملے میں بری ٹھہرا دینا غلط ہے‘ نفس اور شیطان کا دھوکہ ہے. تاہم قاعدہ اپنی جگہ یہی ہے : لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ کہ ہر شخص اپنی وسعت کے مطابق ہی جواب دہ ہے.