آگے بھی ایک اہم اصول بیان ہوا ہے‘فرمایا: لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ ’’ہر جان کے لیے وہی کچھ ہے جو اُس نے کمایا ہے اور اس پر وبال بھی اسی کاآئے گاجواس نے گناہ کیے ہیں‘‘.میں نے بارہا آپ کو بتایا ہے کہ لام کسی کے حق میں جانے والی بات کے لیے اور عَلٰی کسی کے خلاف جانے والی بات کے لیے آتا ہے . جیسے فرمانِ نبویؐ ہے: اَلْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَّکَ اَوْ عَلَیْکَ (۱’’ قرآن یا تو حجت اور دلیل (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الطہارۃ‘ باب فضل الوضوء . ہے تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف‘‘یعنی اس پر چلو گے‘ اس پر عمل کرو گے‘ تو وہ قیامت کے دن تمہارے حق میں گواہی دینے والا ہوگا اور اللہ سے تمہاری سفارش کرے گا‘ لیکن اگر تم اس کے خلاف چلو گے تو وہ تمہارے خلاف حجت بن جائے گا.یہی بات یہاں فرمائی: لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ. یہ مضمون بھی قرآن مجید میں مختلف الفاظ کے ساتھ کئی مقامات پر بیان ہوا ہے‘مثلاً سورۂ فاطر میں فرمایا: وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ؕ(آیت۱۸’’اورکوئی جان نہیں اٹھائے گی کسی دوسری جان کا بوجھ‘‘.قیامت کے روز نہ باپ بیٹے کابوجھ اٹھا سکے گا اورنہ بیٹا باپ کا‘ نہ شوہر بیوی کا اور نہ بیوی شوہر کا. ہر ایک کو اپنا بوجھ خود اٹھانا ہو گا.