سورۃ البقرۃ کی آخری آیت کی ابتدا میں دو اصول بیان کرنے کے بعد‘اب آگے ایک دعا تلقین کی گئی اور بلاشبہ یہ قرآن مجید کی جامع ترین دعاؤں میں سے ایک ہے. فرمایا: رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ ’’اے ہمارے رب! ہمارا مواخذہ متکیجیو اس پر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہو جائے‘‘. خطاکسے کہتے ہیں؟ آپ نشانہ لگا رہے تھے تو و ہ نشانہ صحیح جگہ پر نہیں لگا بلکہ چوک گیا تو یہ خطاہے اور خطا سے ہونے والا کوئی کام اس اُمت کے لیے قابل مؤاخذہ نہیں ہے.

قرآن مجید کی اس جامع ترین دعا کا اگلا حصہ بھی بہت اہم ہے: رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ ’’ اے ہمارے رب!ہم پرمت ڈالیے وہ بوجھ جوآپ نے ہم سے پہلوں پر ڈالا تھا‘‘. یہاں اصل میں شریعت موسوی ؑکی طرف اشارہ ہے جو درحقیقت بہت سخت تھی‘جبکہ شریعت محمدیؐ کو بہت آسان کیا گیا ہے. مثلاً شریعت موسوی میں رات کو سونے پر روزہ شروع ہوجاتا ہے اور اگلے روز غروبِ آفتاب تک چلتا ہے. اس کے مقابلے میں ہمارے لیے یہ حکم ہے کہ طلوعِ فجر سے پہلے کھائو پیو اور طلوعِ فجر سے روزہ شروع ہوگا جو غروب تک جائے گا. پھر ان کے لیے ’’یومِ سبت‘‘کی بڑی سخت ممانعت تھی‘یعنی جمعہ کی رات سے شروع ہو کر ہفتہ کے غروب تک(مکمل ۲۴گھنٹے) کوئی دنیوی کام نہیں کرنا.جو عملی یہودی ہیں وہ آج بھی اس پر مکمل عمل کرتے ہیں کہ ان اوقات میں بس عبادت کرو‘ تورات پڑھواور نیکی کے کام کرو.وہ اپنے ٹیلی فون بھی ان اوقات میں منقطع کر دیتے ہیں اوردنیا کاکوئی کام نہیں کرتے . اصحابِ سبت نے اس ضمن میں ایک حیلہ کیا تھا تو ان پر بڑا سخت عذاب آیا‘ان کی صورتیں مسخ کر دی گئیں اور وہ بندروں کی شکل کے بنا دیے گئے.اس کے مقابلے میں شریعت محمدیؐ میں جمعہ کے دن نمازِ جمعہ کی اذان سے لے کر نماز کے مکمل ہونے تک دنیوی کام کرنے کی پابندی ہے جو بمشکل دو گھنٹے بنتے ہیں. لہٰذا شریعت موسوی بہت سخت تھی تواس کے مقابلے میں شریعت محمدیؐ میں آسانیاں پیدا کی گئیں اوراس حوالے سے رسول اللہ نے اپنی اُمت کو بھی آسانیاں پیدا کرنے کی تعلیم فرمائی ہے: یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا (۱’’لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو اور سختی نہ کیا کرو.‘‘

عام طور پر ہمارے ہاں بعض علماء کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو تو سخت سے سخت بات کافتویٰ دیں گے اور خود انہیں ’’کتابُ الحیل‘‘ کی رو سے معلوم ہے کہ کس حیلے کے ذریعے بچا جا سکتا ہے اور وہ خودان حیلوں پر عمل کرتے ہیں.ہونا تویہ چاہیے کہ آپ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سختی کریں اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں. شریعت کے اندر جوبھی گنجائش نکل سکتی ہے ‘وہ لوگوں کو نکال کر دکھائیں.بفحوائے قرآنی: یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ (البقرۃ:۱۸۵’’اللہ تو تمہارے ساتھ آسانی چاہتاہے‘ اور وہ تمہارے ساتھ سختی نہیں چاہتا.‘‘

سورۃ البقرۃ کی زیر مطالعہ آیت رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ میں دو لفظ قابل غور ہیں: اصر اور حمل ’’اصر‘‘ کہتے ہیں اصل میں اس بوجھ کو جس کو اٹھا کر چلنا دوبھر ہو جائے اور ’’حمل‘‘ کہتے ہیں اُس بوجھ کو جس کو لے کر چلا جا سکے.چنانچہ بوجھ اٹھاکر چلنے والے پلے دار کو’’حمَّال‘‘ کہاجاتا (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الادب‘ باب قول النبی یسروا ولا تعسروا. وصحیح مسلم‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب فی الامر بالتیسیر وترک التنفیر. ہے. حضور کی شان میں سورۃ الاعراف میں یہ آیت آئی ہے : وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ (آیت ۱۵۷’’ اور(نبی اکرم ) ان سے اتار دیں گے ان کے بوجھ اور طوق جو ان (کی گردنوں) پر پڑے ہوں گے‘‘. یہود کا معاملہ یہ تھا کہ ایک تو اصلاً شریعت سخت تھی اور پھر یہودی علماء نے بھی لوگوں کے لیے سختی در سختی کے قانون کے اپنایا تو لوگوں پر وہ بوجھ ناقابل برداشت ہوگیا. شریعت محمدیؐ نے وہ بوجھ اتار دیا اور لوگوں کے لیے نرمی پیدا کردی. چنانچہ اُمت محمدی ؐ کو اس دعا کی تلقین کی گئی: رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ ’’ اے ہمارے رب! ہم پرمت ڈالیے وہ بوجھ جو آپ نے ہم سے پہلوں پر ڈالا تھا.‘‘

آگے پھر وہی بات دوبارہ فرمائی : رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ ’’اے ہمارے رب!ہم پر ایسا بوجھ بھی نہ ڈالیو جس کی ہمارے اندر طاقت نہ ہو‘‘. وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ ’’اور ہمیں معاف کرتا رہ اور ہمارے گناہوں کی پردہ پوشی فرما‘‘. وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰىنَا ’’اور تو ہم پر رحم فرما‘ تو ہی ہمارا مولا ہے‘‘.فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۸۶﴾٪ ’’اور ہماری مدد کر کافروں کے مقابلے میں‘‘. اس میں اشارہ ہو گیا کہ کفر کے خلاف جدوجہد اہل ایمان پر فرض ہے اور جونہیں کرتے وہ فرض کے تارک ہوں گے. اور اگر وہ جدوجہدکر رہے ہیں تو پھر اللہ کی مد دبھی آئے گی.