حضرت یاسر اور سمیہ رضی اللہ عنہا تو اتنے بدترین جبر کی حالت میں بھی ثابت قدم رہے اور موت کو سینے سے لگالیا‘لیکن کلمہ ٔکفر نہیں کہا.حضرت عمار رضی اللہ عنہ نوجوان تھے ‘وہ اس صورتِ حال کو برداشت نہیں کر سکے اور کلمہ کفر کہہ کے جان بچالی. اب اُن پر پشیمانی طاری ہوئی کہ یہ میں کیا کربیٹھا ہوں.اس پر انہوں نے اپنے آپ کو ایک ستون سے باندھ دیا اور کہا کہ اب تو محمد رسول اللہ ہی آکر مجھے یہاں سے کھولیں گے‘ورنہ میں یہیں پر جان دے دوں گا. حضور کو جب اس کا علم ہوا تو آپؐ آئے اوراپنے دست ِمبارک سے ان کو کھولا اور فرمایا کہ اونچا ترین مقام توتمہارے ماں باپ لے گئے اور جو تم نے کیا تو اس کی بھی اجازت ہے.چنانچہ جس پر اس درجے جبر کیا گیا ہو تو وہ کلمہ کفر کہہ کر اپنی جان بچا سکتا ہے ‘یہ جائز ہے اور اس کی رخصت ہے.چنانچہ دین میں رخصت بھی ہے اور عزیمت بھی . عزیمت والے تو روشن چراغ بن جاتے ہیں اور لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں اور ان کے تذکرے سے دلوں کے اندر ایمانی جذبات اُبھرتے ہیں. دوسری طرف رخصت والے اگرچہ اُس اونچے مقام کوحاصل نہیں کرپاتے جو عزیمت والوں کے حصہ میں آتا ہے‘لیکن ان پر بھی کوئی الزام نہیں ہے ‘اس لیے کہ اسلام میں اس کی اجازت ہے.

اس حوالے سے سورۃ النحل کی یہ آیت بھی میں نے آپ کوابتدا میں سنائی تھی: مَنۡ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ ’’جس کسی نے کفر کیا اللہ کے ساتھ ایمان لانے کے بعد‘سوائے اُس کے جسے مجبور کر دیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو‘‘ وَ لٰکِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡکُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۰۶﴾ ’’مگر جس نے کھول دیا کفر کے ساتھ (اپنا) سینہ تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے ‘اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے‘‘.اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ کسی کو اتنا مجبور کر دیاگیاہوکہ اُس نے جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہہ دیا ہوتو اس کی اجازت ہے اور اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا‘لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو.