یہ دنیا‘متاعِ غرور‘متاعِ قلیل اور لہوولعب ہے

قرآن مجید میں دنیوی زندگی کی بے ثباتی کوبیان کرنے کے لیے اسے مختلف القابات سے نوازا گیاہے‘مثلاًبعض مقامات پر اسے ’’متاع الغرور‘‘(دھوکے کا سامان) کہا گیا (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الزہد‘ باب ما جاء فی اخذ المال بحقہ. ہے: وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿﴾ (آل عمران:۱۸۵ و الحدید :۲۰’’اور یہ دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے‘‘.علامہ اقبال کی ایک بڑی پیاری نظم ہے‘جس کا پہلا مصرع ہے:’’خودی کا سر نہاں لا الٰہ الا اللہ‘‘ اور اس میں یہ مصرع بھی ہے ؏ ’’کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا!‘‘دیکھو تم اس متاعِ غرور یعنی دھوکے کے سامان کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہو جو تمہیں آخرت سے غافل کر رہاہے. ہاں دنیا اگر اس حیثیت میں ہو کہ آخرت سے غافل نہ کر پائے تو دنیا میں کوئی برائی نہیں ہے. اس ضمن میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے : اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْآخِرَۃِ (۱’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘.یہاں بوؤ گے تو وہاں کاٹوگے نا! اسلام میں ترکِ دنیا اور رہبانیت کا کوئی تصور نہیں ہے .جولوگ ترکِ دنیا کر کے بیٹھ گئے‘ وہ تو یہاں کچھ کاشت ہی نہیں کر رہے تو وہ وہاں کون سی فصل کاٹیں گے؟لہٰذا دنیا کو چھوڑنانہیں ہے بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے یہاں اللہ کے دین کو غالب کرنا ہے.

اسی طرح سورۃ النساء میں دنیا کو ’’متاعِ قلیل‘‘ قرار دیا گیا ہے: قُلۡ مَتَاعُ الدُّنۡیَا قَلِیۡلٌ ۚ وَ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی ۟ (آیت۷۷’’(اے نبی !) کہہ دیجیے دنیا کا ساز و سامان بہت تھوڑا ہے‘اور آخرت بہت بہتر ہے اس کے لیے جو تقویٰ کی روش اختیار کرے‘‘.یہی مضمون سورۃ الرعد میں بایں الفاظ بیان ہوا: وَ فَرِحُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ ﴿٪۲۶﴾ ’’اور یہ لوگ مگن ہیں دنیا کی زندگی پر‘ حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے تھوڑے سے فائدے کے.‘‘

میرے نزدیک سورۃ العنکبوت کی آیت اس معاملے میں سب سے اوپر ہے جس میں اس دنیا کی زندگی کو لہو ولعب قراردیاگیا ہے‘فرمایا: وَ مَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ ؕ ’’اور نہیں ہے یہ دنیا کی زندگی مگر لہو اور لعب‘‘.لعب کہتے ہیں کھیل کود کو اور لہو کے اندر کچھ نہ کچھ تلذذ کی کیفیت (sensual gratification) بھی آ جاتی ہے. (۱) تخریج الاحیاء للعراقی ۴/۲۴. وقال : لم اجدہ لھذا اللفظ مرفوعا. ایک بچہ کھیل رہا ہے اور اس کے کھیل کے اندر اس کی نفسانیت اور شہوت کا کوئی دخل نہیں ہے تو یہ لعب ہے‘لیکن جب اس میں شہوانیت کا حصہ بھی شامل ہوجائے تو وہ لہو بن جاتاہے. چنانچہ یہ دنیا کی زندگی سوائے لہو اور لعب کے اور کچھ نہیں ہے. وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾ ’’اور آخرت کا گھر ہی یقینا اصل زندگی ہے. کاش کہ انہیں معلوم ہوتا!‘‘

سورۃ الاعلیٰ میں فرمایا: بَلۡ تُؤۡثِرُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿۫ۖ۱۶﴾وَ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی ﴿ؕ۱۷﴾ ’’بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘جبکہ آخرت بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی‘‘ایثار کہتے ہیں کسی چیز کو دوسری پر ترجیح دینا.ہم اردو میں بولتے ہیں ایثار کرو‘یعنی اپنے مفاد پر دوسروں کے مفاد کو مقدم رکھو. ایک شخص مذہبی کام بھی کر رہا ہے ‘ نماز روزہ کا بھی پابند ہے‘تو اصل جانچنے کی چیز یہ ہے کہ کیا اس کی زندگی یہ ثبوت دے رہی ہے کہ وہ آخرت کو ترجیح دے رہا ہے یا دنیا کو ؟دیکھنا ہو گا کہ وہ اپنی بہتر سے بہتر صلاحیت دنیا کے لیے استعمال کررہا ہے یا آخرت کے لیے؟ اگر اس کی زیادہ توجہ آخرت کے حق میں ہے تو تہنیت ہے‘مبارک باد ہے اور اگر دنیا کے لیے ہے تومعاملہ تشویش ناک ہے.

بعض بزرگوں نے انسان اور دنیا کی مثال اس طرح دی ہے کہ دنیا اورانسان کا معاملہ ایک کشتی کا سا ہے. کشتی پانی کے اوپر چل رہی ہے تو معاملہ درست ہے‘لیکن اگر پانی کشتی میں آ گیا تو تباہی وبربادی ہے. اسی طرح تم دنیا میں تو رہو‘لیکن تمہارے دل میں دنیا نہیں آنی چاہیے.دنیا میں ایسے رہوکہ ؏’’بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں!‘‘