زیر مطالعہ اربعین کی حدیث میں رسول اللہ نے فرمایا: کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ .اب یہ غریب کالفظ بھی بڑا عجیب ہے. غریب کہتے ہیں اجنبی کو ایک شخص عین مجمع کے اندر رہتے ہوئے بھی غریب ہو سکتا ہے‘اسے کوئی پہچانتا ہی نہ ہواور نہ وہ کسی کو جانتا ہو‘ تو اسے کہیں گے کہ مجمع میں غریب ہے. ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بندۂ مؤمن کسی ایسے ماحول میں رہ رہا ہوتا ہے کہ اُس کے دل کو جو لگن لگی ہوئی ہے‘وہ کسی اورکے دل میں نہیں ہے. سب دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور اسے آخرت کی فکر ہے تو یہ بھی اس ماحول میں اجنبی ہو جائے گا.

لفظ غریب کے حوالے سے ایک بڑی عظیم حدیث ہے.رسول اللہ نے فرمایا: بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَاَ‘ فَطُوْبَی لِلْغُرَبَائِ (۱’’اسلام اپنے آغاز میں اجنبی تھا اور عنقریب وہ اجنبی ہو جائے گا جیسا کہ ابتدا میں تھا‘پس خوشخبری ہے اجنبیوں کے لیے‘‘. اسلام کا جب آغاز ہوا تو اسلام اجنبی تھا‘غریب تھا . کوئی اسلام لے آتا تھا توکفارِ مکہ کہتے تھے کہ اس کی مت ماری گئی ہے. مدینہ کے منافق بھی ایمان لانے والوں کو بیوقوف کہاکرتے تھے: وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا کَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ ’’اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ‘ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں‘‘.جیسے ابوبکر‘عمر‘عثمان اور علی ایمان لائے ہیں‘ حمزہ‘ طلحہ اور زبیر ایمان لائے ہیں(رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ) توتم بھی انہی کے نقش قدم پر چلو.اس کے جواب میں وہ کہتے تھے: اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ؕ ’’کیا ہم اس طور سے ایمان لے آئیں جیسے ان بیوقوفوں نے اسلام قبول کیا ہے؟‘‘یہ تو بیوقوف ہیں کہ ایمان لانے کے بعد انہیں کسی چیز کی فکر ہی نہیں ہے.نہ دائیں کی فکر‘نہ بائیں کی‘بس ان کا مقصد تو اللہ‘ اللہ کے رسول اور ان کے احکامات کو ماننا اور اس کی راہ میں جہادکرناہے.یہ بات آج بھی کہی جاتی ہے کہ یہ لوگ دین کے کام میں لگ گئے ہیں .یہ سوچتے ہی نہیں کہ ہماری بیٹیاں بھی گھروں میں بیٹھی ہوئی ہیں جن کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں تو اس کے لیے کچھ پیسے جمع کریں.لہٰذا یہ تو بیوقوف (سُفَھَا) ہیں. یہ تو fanatics ہیں‘ شدت پسند ہیں‘ انتہا پسند ہیں. یہ سارے الفاظ اصل میں اسی لفظ (سُفَھَائ) کی شرح ہے.

چنانچہ حضور نے فرمایا: بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًاوَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَاَ ’’اسلام اپنے آغاز میں اجنبی تھا اور عنقریب وہ اجنبی ہو جائے گاجیسا کہ آغاز میں تھا‘‘.یہ ایک (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان ان الاسلام غریبا وسیعود غریبا… بہت بڑی حقیقت ہے جس کی طرف رسول اللہ نے اشارہ کیا ہے.یہ کب ہوگا اس بارے میں سمجھ لیجیے. لفظ ’’سَ‘‘ عربی میں مستقبل قریب کے لیے آتا ہے اور مستقل بعید کے لیے ’’سَوْفَ ‘‘ آتا ہے.جیسے قرآن مجیدمیں کئی مقامات پر آیا ہے: سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ کہ ابھی تو تمہاری آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں‘لیکن ایک وقت آئے گا کہ تمہاری آنکھوں سے پردے اُٹھ جائیں گے اور حقیقت تمہارے سامنے منکشف ہو جائے گی. اُس وقت کے آنے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے اور تمہارے پاس کچھ مہلت موجودہے. لیکن سین (سَ) مستقبل قریب کے لیے آتا ہے اور آپ نے فرمایا: وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَاَ کہ عنقریب اسلام دوبارہ اجنبی ہو جائے گا ایسے ہی جیسے کہ پہلے تھا. یہ بڑی عظیم تاریخی حقیقت ہے. خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد اسلام زوال پذیر ہوا اور آج تک زوال پذیر ہے. اگرچہ عربوں کو بڑی عظمت حاصل ہوئی کہ پہلے بنوامیہ کی سلطنت قائم ہوئی اور پھر بنوعباس کی عظیم سلطنت ‘جو اُس وقت دنیا میں سب سے بڑی سلطنت تھی‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں اسلام غریب تھا. اس وقت جس کی لاٹھی‘ اس کی بھینس اور جس کی طاقت‘اس کی حکومت کا معاملہ تھا.جبکہ اسلام کے اصول اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ کا معاملہ بالکل ختم ہوگیا تھا. 

فَطُوْبَی لِلْغُرَبَاءِ 

اس حدیث کے آخر میں رسول اللہ  نے دین کے اجنبیت کے دور میں دین سے چمٹے رہنے والوں کو مبارک باد بھی دی ہے: فَطُوْبَی لِلْغُرَبَائِ ’’تو مبارک باد اور تہنیت ہے ان کے لیے جو خود غریب ہو جائیں‘‘. یعنی جب اسلام غریب ہو جائے تو آپ اس کے دامن کے ساتھ چمٹے رہیں. چاہے دنیا کہے کہ ؏ ’’ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو!‘‘ ان کی کوئی حیثیت نہیں.یہ اس دور میں پردے کی بات کرتے ہیں‘ ان کا دماغ خراب ہوگیاہے. اس اعتبار سے اگر لوگ آپ سے نفرت بھی رکھیں تو اس کی پروا نہ کریں.جب میں نے پردے کی بات کی تو مجھے یہ خطاب ملا تھا: 
The most hated person in the educated ladies of Pakistan. 
پاکستان کی پڑھی لکھی خواتین میں سب سے زیادہ قابل نفرت شخصیت! 

یہ پردے کی بات کرتاہے‘یہ segregation کی بات کرتا ہے‘یہ ستر کی بات کرتا ہے. ایسی صورتِ حال میں آپ بالکل اجنبی ہو جائیں ‘اس لیے کہ ہمیں اجنبی رہنے کے اندر ہی عافیت نظر آتی ہے اور ہم کسی صورت زمانے کا ساتھ نہیں دیں گے.اب ایسی صورتِ حال میں کسی بھی معاشرے کے اندر زندگی گزارنے کے دو انداز ہیں. ایک یہ کہ ؏ ’’زمانہ با تونسازد ‘توبازمانہ بساز!‘‘ یعنی اگر زمانہ تمہارے ساتھ ہم آہنگی اختیار نہیں کرتا تو تم زمانے کے رنگ میں رنگے جاؤ.گویا ؏ ’’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی!‘‘ اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ ’’زمانہ باتونسازد‘تو بازمانہ ستیز!‘‘ کہ اگرزمانہ تمہارے ساتھ ہم آہنگی نہیں کر رہا تو تم زمانے کے ساتھ لڑو‘زمانے کے خلاف جنگ کرو!