یہ تین احادیث ہیں جو لَا یُؤْمِنُ سے شروع ہو رہی ہیں . اس ضمن میں ایک بات نوٹ کر لیجیے کہ لَا یُؤْمِنُ کا لفظی ترجمہ’’ مؤمن نہیں ہو سکتا‘‘ اس کو قانونی معنی میں نہیں لیا جاسکتا کہ ایسا کرنے والے سے ایمان ہی کی نفی کرکے اس پر کافر کا لیبل لگا دیا جائے. اربعین نووی کی حدیث ۳’’حدیث جبریل‘‘ کا مطالعہ ہم نے پانچ خطاباتِ جمعہ میں کیا تھا. وہاں ہم نے سمجھا تھا کہ قانونی ایمان اور ہے‘ حقیقی ایمان اور‘ اسی طرح قانونی اسلام اور ہے‘ حقیقی اسلام اور. ان کو دو علیحدہ علیحدہ categories میں سمجھنا ضروری ہے. لَا یُؤْمِنُ کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ کافر ہو گیا‘ بلکہ ایسی حدیثوں میں ایمان کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایما نِ حقیقی نہیں ہے.عام طور پر علماء لَا یُؤْمِنُ کا ترجمہ ’’اس کا ایمان کامل نہیں ہے ‘‘کر دیتے ہیں‘ا س سے مجھے اختلاف ہے‘ اس لیے کہ اس سے انسان کی سوچ یہ بن جاتی ہے کہ کامل ایمان ہونا توبہت اونچے درجے کی بات ہے‘ میرے لیے نیچے درجے کا ایمان ہی کافی ہے‘چنانچہ اس لفظ سے انسان کے اندر جو تشویش پیدا ہونی چاہیے وہ پیدا نہیں ہوتی.جیسے ایک موقع پر رسول اللہ نے فرمایا: (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ. وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ، وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ، وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ ’’خدا کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہے‘خدا کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہے‘خدا کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہے‘‘. قِیْلَ مَنْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ پوچھا گیا کہ حضورؐ کون؟ آپ نے فرمایا: اَلَّذِیْ لاَ یَاْمَنُ جَارُہٗ بَوَائِقَـہٗ (۱’’وہ شخص کہ جس کا پڑوسی اس کی ایذا رسانی سے امن میں نہیں ہے‘‘. اب یہ گناہ کبیرہ بھی نہیں ہے بلکہ اسے کج خلقی اور بداخلاقی سمجھ لیجیے.اس کے باوجود یہاں تین دفعہ قسم کھا کر لَا یَؤْمِنُ کہا گیا تو اس انداز اور اسلوب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کافر ہو گیا. اور اس کا یہ مفہوم بیان کرنا کہ اس کا ایمان کامل نہیں ہے‘پھر کامل نہیں ہے‘پھر کامل نہیں ہے تو اس سے حدیث کے اندر تشویق و ترغیب کا جوپہلو ہے اور جو زور ہے وہی ختم ہو جائے گا. لہٰذا اس کا مناسب ترجمہ یہ ہو گا کہ وہ شخص حقیقتاً مؤمن نہیں ہے جس کا پڑوسی اس کی ایذارسانیوں سے محفوظ نہ ہو.

حقیقتاً مؤمن اور مسلمان ہونا اور بات ہے‘جبکہ قانوناً مؤمن اور مسلمان ہونا اور ہے‘ اور اس کا دار ومدار اقرار باللسان پر ہے کہ آپ نے زبان سے کہہ دیا: اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلَ اللّٰہِ اور آپ دین کی کسی بنیادی بات کا انکار نہیں کرتے تو آپ قانوناًمسلمان شمار ہوں گے. خواہ آپ فاسق ہیں‘ فاجر ہیں‘گناہ گار ہیں‘جو بھی ہیں مگر آپ کا شمار مسلمانوں میں ہو گا. آپ چوری کریں گے تو ہاتھ کٹ جائے گامگر مسلمان رہیں گے . زنا کریں گے تو شادی شدہ ہونے کی حالت میں رجم کر دیے جائیں گے‘ لیکن اس صورت میں بھی آپ مسلمان رہیں گے اور آپ کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی.چنانچہ ایک ہے قانونی ایمان اور ایک ہے حقیقی ایمان اور ان دونوں میں فرق و تفاوت نہ کرنے سے بڑے بڑے مغالطے پیدا ہوتے ہیں.لہٰذا لَا یُؤْمِنُ کا ترجمہ یہ ہوگا کہ وہ شخص حقیقی مؤمن نہیں ہے.