زیر مطالعہ حدیث میں لفظ ھَوٰی آیا ہے ‘ اردو میں ہم اس کے لیے ہوائے نفس (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الادب‘ باب اثم من لا یامن جارہ بوائقہ. (خواہش نفس)بولتے ہیں. ہوائے نفس کے دو درجے ہیں. ایک تووہ ہے کہ جو جبلی طورپر انسان کے تقاضے ہیں جسے جدید سائیکالوجی میں فرائڈ کی اصطلاحات میں idd یا libido کہتے ہیں. جبلی طورپر انسان کو بھوک لگتی ہے تو وہ کھانا کھاتا ہے‘اگر اس کو جنسی خواہش (sexual urge) ہے تو وہ شادی کرتا ہے یا پھر گناہ میں مبتلا ہوتا ہے. آرام بھی انسانی جسم کا تقاضا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ آرام چاہیے. اسی طرح اور بھی انسان کے جبلی تقاضے ہیں. یہ جبلی تقاضے بھی خواہش نفس میں آتے ہیں لیکن ان کو کنٹرول کرنا ہے. رمضان کے مہینے کا مقصد ہی نفس کی تربیت کرنا اور نفس کو کنٹرول کرنا ہے .اسلام میں نفس کو کچلنے کا تصور نہیں ہے‘اس لیے کہ نفس کو کچلنا رہبانیت ہے اور لَا رَہْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ ’’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے.‘‘
خواہش نفس کا ایک دوسرا مرحلہ بھی ہے .دیکھئے ایک ہے زندہ رہنے کے لیے کھانا اور ایک ہے لذت کے لیے انواع وا قسام کے کھانوں کا لطف اٹھانا‘تو یہ اسراف ہے.اسی طرح کپڑے آپ کی ضرورت ہیں‘ لیکن یہ کہ الماریاں کپڑوں سے بھری ہوئی ہوں‘ یہ غلط ہے‘ تعیش اور عیش پسندی ہے. اس دوسرے والے مرحلے پر آکر نفس گویا باغی ہو جاتا ہے اور وہ پھر انسان کا مخالف اور دشمن بن جاتا ہے.