نفس یا ہوائے نفس کی خرابی کے معاملے کو قرآن مجید نے مختلف انداز میں بیان کیا ہے اور اس ضمن میں سخت ترین انداز سورۃ الفرقان میں آیاہے: اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ (آیت۴۳’’(اے نبی !) کیاآپ نے دیکھا اُس شخص کو جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے‘‘. وارننگ اور خبردار کرنے کے لیے یہ سخت ترین الفاظ ہیں.یعنی کوئی زبان سے توکہہ رہا ہے: لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہ اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں‘جبکہ حقیقت میں اس نے اپنے نفس کومعبود بنا رکھا ہے .اگر تو آپ خواہش نفس کے مکمل غلام ہو گئے بایں طور کہ خواہش نفس کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں‘یہ دیکھے بغیر کہ کیا حلال ہے کیا حرام‘ تواس اعتبار سے گویا نفس ہی آپ کا معبود ہے. کہنے کو تو کہہ رہے ہو کہ میں اللہ کو معبود مانتا ہوں‘لیکن درحقیقت آپ اپنے نفس کے بندے ہیں.آپ خواہش نفس کی پوجا کرنے والے ہیں اور نفس و خواہشات کے پرستار اور پجاری بن چکے ہیں.
اس موضوع پر میری تفصیلی گفتگو’’حقیقت و اقسامِ شرک‘‘ کے عنوان سے چھ گھنٹوں پر مشتمل خطابات کی صورت میں موجود ہے( جوکتابی شکل میں بھی شائع ہو چکی ہے). میں سمجھتا ہوں کہ اس ضمن میں وہ بہت سے لوگوں کے لیے بہت مفید ہو گی.ہم نے تو شرک صرف بت پرستی کو سمجھا ہوا ہے یا بہت موحد ہو جائیں تو قبرپرستی کو شرک مانتے ہیں‘ حالانکہ اس کے علاوہ بھی بہت سے شرک ہیں. نفس پرستی بھی شرک ہے‘دولت پرستی بھی شرک ہے. حضور نے فرمایا: تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْھَمِ (۱’’ہلاک ہو جائے درہم و دینار کا بندہ‘‘. نام توعبدالرحمن ہے لیکن حقیقت میں عبدالدینار ہے اور خواہش یہ ہے کہ دینار آنے چاہئیں‘چاہے حلال سے ہو یا حرام سے‘لہٰذا اس کا معبود تو رحمن نہیں‘دینار ہوا. ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اگر لکشمی دیوی کسی پر مہربان ہو جائے تو بہت دولت ملتی ہے‘ لہٰذا وہ اسے پوجتے ہیں. ہم نے اُن سے بھی دو قدم آگے بڑھ کرکہا کہ اس دیوی کودرمیان سے ہٹاؤ‘ہم براہِ راست دولت کو پوجیں گے. اللہ اللہ خیر صلا! 

اب جو شخص اس حد تک خواہش نفس کے پیچھے چلنے والا بن جائے تو اس کے بارے میں فرمایا: اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ ’’(اے نبی !)کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے‘‘. اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳﴾ ’’تو کیا آپؐ ایسے شخص کی ذمہ داری لے سکیں گے‘‘.فرض کیجیے کہ ایسا شخص قیامت کے دن آپ کے پاس شفاعت کی درخواست لے کر آئے تو کیا آپ ایسے شخص کی شفاعت کریں گے‘کیا آپ ایسے شخص کی ذمہ داری قبول کریں گے؟

میں نے بارہا کہا ہے کہ اہم مضامین قرآن حکیم میں دو جگہ ضرور آتے ہیں. یہ جو نفس اورخواہش نفس کو معبود بنا لینے کا مضمون ہے‘ یہ پھر سورۃ الجاثیہ میں بھی آیا ہے اور (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب ما یتقی من فتنۃ المال. یہاں بات بہت سخت ہو گئی.فرمایا : اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ (آیت ۲۳’’(اے نبی !)کیا دیکھا آپ نے اس شخص کوجس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنالیا اور اللہ نے اسے گمراہ کر دیا اس کے علم کے باوجود‘‘.یعنی عالم تو بہت بڑا ہے لیکن نفس کا پجاری ہے ‘یا علم سے مقصود مال و دولت کا حصول ہے یا علم کے ذریعے سے اُمراء کی ہم نشینی اور قرب اختیار کرنا اور ان سے فائدے اٹھاناا اس کا مقصد ہے. اگر علم کا یہ مقصد ہے تو ایسا شخص علم کے باوجود گمراہ ہو جائے گا . جب رسول اللہ نے نبوت کا اعلان کیا تو اہل کتاب کے بڑے بڑے احبار و رہبان اس وقت موجود تھے اور وہ اپنے علم کے باوجودحضور پر ایمان نہیں لائے. حالانکہ قرآن گواہی دیتا ہے : یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ ؕ (البقرۃ:۱۴۶’’وہ آپ کوایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کوپہچانتے ہیں‘‘.لیکن ایمان نہ لانے کی وجہ یہ تھی کہ انہیں معلوم ہوگیا تھاکہ حضور پر ایمان لانے سے ہماری سیادت‘ ہماری چودھراہٹ‘ ہماری مسندیں ساری دائو پر لگ جائیں گی. اب تو ہمارے فتوے پر لوگ عمل کرتے ہیں‘ ہمارے ہاتھ چومتے ہیں‘ ہمیں نذرانے دیتے ہیں‘تو یہ سارا کچھ ختم ہو جائے گا ‘چنانچہ وہ اپنے علم کے باوجودایمان نہیں لائے. 

اس حوالے سے میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں کہ نجران سے عیسائیوں کا ایک بڑا وفد آیا تھا اور اس نے کئی دن مدینہ منورہ میں مقیم رہ کر حضور سے مباحثہ کیا.جب کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے تو مباہلے کی آیت نازل ہو گئی کہ اب دلیل ختم ہوئی‘آئو اب مباہلہ کر لیں. مباہلے میں کہتے ہیں کہ اے اللہ !اگر یہ چیز حق ہے تو ہمیں تباہ کر دے.چونکہ ان پر حق واضح ہو چکا تھا تواس کے لیے وہ تیار نہیں ہوئے‘بلکہ راتوں رات چلے گئے . واپسی پر ایک واقعہ پیش آیا.اس وفد میں دو بھائی تھے .چلتے چلتے ایک بھائی کی سواری نے ٹھوکر کھائی تو اُس نے کہا : تَعِسَ الْاَبْعَدُ ’’ہلاک ہو جائے وہ دور والا‘‘. دوسرے بھائی نے پوچھا کہ اَلْاَبْعَد سے تمہاری مراد محمد( ) ہے؟ اس نے کہا:نہیں‘ وہ تو اللہ کے نبی ہیں. اُس نے پوچھا کہ پھر ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟ اس نے کہا کہ شہنشاہِ روم ہرقل نے ہمیں بہت سی مراعات دے رکھی ہیں اور اُن کی وجہ سے ہمیں بہت سے فائدے حاصل ہیں‘ اگر ہم محمد( )پرایمان لے آئیں تو وہ سب فائدے ہمارے ہاتھ سے چلے جائیں گے. چنانچہ یہ علم کے باوجود گمراہی ہے ‘اس لیے کہ یہاں خواہش نفس اور اپنے دنیوی مفادات معبود ہیں. اپنی حیثیت‘ اپنا مقام‘اپنا مرتبہ‘ اپنی جاہت‘ اپنا اقتدار حق کے قبول کرنے میں آڑے آ رہا ہے. یہی درحقیقت اپنے نفس کو معبود بنانا ہے.