خطاب کے آغاز میں‘میں نے سورۃ النازعات کی آیات آپ کو سنائیں جن میں تقابلی انداز میں اس موضو ع کو بیان کیا گیا ہے.فرمایا: فَاَمَّا مَنۡ طَغٰی ﴿ۙ۳۷﴾… ’’پس جس نے سرکشی کی…‘‘یہاں دو قسم کے لوگوں کا تذکرہ ہے‘ ان میں سے ایک وہ ہیں جو طغیانی و سرکشی پراُتر آئے کہ اللہ اوراس کے رسولﷺ کی بات نہیں مانیں گے طَغٰی کا معنی ہے بڑھ جانا.جیسے کہا جاتا ہے کہ دریا میں طغیانی آگئی تو اس کا معنی یہ ہے کہ دریا اپنی حدود سے نکل کر اِدھر اُدھر تباہی پھیلا رہا ہے‘کھڑی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں‘ گاؤں بہہ رہے ہیں‘ یہ طغیانی ہے. اسی طرح نفس کی سرکشی اور نفس کا اکڑنا یہ ہے کہ وہ شریعت کا اتباع کرنے سے انکار کر دے اور حد سے باہر نکل جائے . وَ اٰثَرَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿ۙ۳۸﴾ ’’اور اس نے ترجیح دی دنیا کی زندگی کو‘‘. سورۃ الاعلیٰ میں فرمایا: بَلۡ تُؤۡثِرُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿۫ۖ۱۶﴾وَ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی ﴿ؕ۱۷﴾ ’’بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو.جبکہ آخرت بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی‘‘.چنانچہ جس شخص کے اندر اللہ‘اللہ کے رسول(ﷺ ) اور اللہ کے احکام و قوانین کے خلاف طغیانی وسرکشی ہے اورپھر وہ شخص دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دے رہا ہے تو اس کاانجام یہ ہے : فَاِنَّ الۡجَحِیۡمَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۳۹﴾ ’’تویقینا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے.‘‘
دوسری قسم کے لوگوں کا تذکرہ بایں الفاظ فرمایا: وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ ’’اور (اس کے برعکس) جو ڈرتا رہا اپنے رب کے حضور میں کھڑے ہونے سے ‘‘ یعنی اسے یقین ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اللہ کے حضور حاضرہوناہے اور اپنے اعمال و افعال کی جواب دہی ہونی ہے‘تویہ سوچ کر وہ کانپتا رہا‘ لرزتا رہا. وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾ ’’اور اُس نے روکے رکھا اپنے نفس کو خواہشات سے‘‘.یعنی نفس کی لگام کھینچ کر رکھی اور اسے قابو میں رکھا.ایسے شخص کا انجام یہ ہوگا کہ: فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۴۱﴾ ’’تو یقینااُس کا ٹھکانہ جنت ہی ہے‘‘. اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ‘ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ !