انہی آیات کی بہترین ترجمانی حضور کی ایک اور حدیث میں ہے اور وہ حدیث بھی زیرمطالعہ حدیث کی طرح جوامع الکلم میں سے ہے.رسول اللہ نے فرمایا: اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ (۱’’(صحیح معنوں میں) سمجھ دار اور عاقل آدمی وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنے تابع اور مطیع رکھے اور عمل کرے موت کے بعد کے لیے‘‘.یعنی وہ خود نفس کے تابع اور مطیع نہ ہوجائے‘اورعمل کرے موت کے بعد کی ہمیشہ کی زندگی کے لیے.

دنیا میں اپنی جائز ضروریات کو پورا کرنے اور بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے عمل کرنے کی نفی نہیں ہے‘ یہ تو کرنا ہی ہے ‘لیکن یہ سب حلال کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونا چاہیے یاد رکھیے کہ جائز ضروریات کو حلال وجائز طریقے سے پورا کرنا بہت اجروثواب کا باعث ہے.چنانچہ رسول اللہ کا ارشاد ہے: اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الْاَمِیْنُ مَعَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَائِ (۲’’ ایسا تاجر جو سچا ہے‘ امانت دار ہے ‘ اس کو تو قیامت کے دن انبیاء‘ صدیقین اور شہداء کی معیت حاصل ہوگی.‘‘

یہ صحیح ہے کہ اس دنیا کے لیے بھی کام کرو‘لیکن اصل کام موت کے بعد کے لیے ہونا چاہیے. آپ کی بہتر صلاحیتیں آخرت کے لیے لگنی چاہئیں‘ اس لیے کہ آخرت کی زندگی تو (۱) سنن الترمذی‘ابواب صفۃ القیامۃ والورع والرقائق‘ باب منہ.

(۲) سنن الترمذی‘ابواب البیوع‘ باب ماجاء فی التجاروتسمیۃ النبی بایاہم. 
ابدی و دائمی ہے. چنانچہ اگر آپ دنیا اور آخرت کی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے باہمی نسبت و تناسب سے کام کر رہے ہیں تو پھر تو ٹھیک ہے اور اگر صرف انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کے مصداق آخرت کے لیے بس برائے نام سعی وجہد ہے‘جبکہ باقی ساری جدوجہد‘ ساری محنت‘ بھاگ دوڑ‘ سوچ بچار دنیا کے لیے ہے توایسی صورتِ حال میں دنیا آپ کی معبود بن گئی ہے .حالانکہ دنیا کے لیے صرف ضروریات کی حد تک معاملہ کرنے کی اجازت ہے اور اسی کی طرف رسول اللہ نے بایں اندازاشارہ فرمایا: مَا قَلَّ وَکَفٰی خَیْرٌمِمَّا کَثُرَ وَاَلْھٰی (۱کہ اگر دنیوی ضروریات کے لیے بہت تھوڑا بھی انسان کو مل جائے جس سے اس کی ضروریات پوری ہو جائیں تو یہ اس سے بہتر ہے جو زیادہ ہو اور انسان کو آخرت سے غافل کر دے.ظاہر بات ہے کہ جب مال و دولت کی زیادتی ہو گی تو آپ اللہ سے غافل ہو جائیں گے‘لیکن اگرمال اور آسائشیں کم ہوں گی تو آپ اللہ کی طرف رجوع کرتے رہیں گے. جیسے انجیل کی افتتاحی دعا میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ ’’ہماری آج کی روزی ہمیں آج عطا فرما‘کل کی روزی ہمیں کل دیجیو!‘‘چنانچہ جس مقدارسے انسان کی ضرورت پوری ہو جائے اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے تو وہ اس سے بہتر ہے جو زیادہ ہو اور اللہ سے غافل کر دے.