قرآنِ مجید میں ’’ اتباعِ ہوا‘‘ یعنی خواہشاتِ نفس سے بچنے کا حکم کئی مرتبہ آیا ہے . میں ان میں سے چھ آیات کا حوالہ دینا چاہتا ہوں:

(۱)الاعراف:۱۷۶پہلی آیت سورۃ الاعراف کی ہے اوریہ بلعم بن باعوراء کے تذکرے میں آئی ہے.بلعم بن باعوراء حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک عالم‘ زاہد اور صاحب کرامت بزرگ تھا‘لیکن اپنی خواہشاتِ نفس کے پیچھے چلا اور شیطان کا چیلہ بن گیا تو وہ بدترین انجام کا حق دار ٹھہرا. وہاں الفاظ آتے ہیں: وَ لَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰہُ بِہَا (۱) مسند احمد‘ کتاب مسند الانصار‘ باب باقی حدیث ابی الدردائ. وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ (آیت ۱۷۶’’اور اگر ہم چاہتے تو ان (آیات)کے ذریعے سے اسے اور بلند کرتے مگر وہ تو زمین کی طرف ہی دھنستا چلا گیااور اس نے پیروی کی اپنی خواہشات کی‘‘.ہمارا حیوانی وجود زمین سے آیا ہے اور اس کے سارے تقاضے بھی زمین سے پورے ہوتے ہیں. کھانے کے لیے جو کچھ اُگ رہا ہے وہ زمین سے اُگ رہا ہے. آپ نے اگر بکری کا گوشت کھایا ہے تو بکری نے بھی گھاس ‘ پتے ہی کھائے ہیں جو زمین میں اُگے ہیں اور پھر انہی سے گوشت بنا ہے. چنانچہ ہماری اصل (origin) زمین سے ہے اور اسی سے ہماری غذا ئی ضروریا ت پوری ہو رہی ہیں.پھر جب یہ نفس ہم پر حاوی ہوجائے تو ہم نیچے بیٹھتے چلے جاتے ہیں‘زمین میں دھنستے چلے جاتے ہیں ‘یعنی ہم اپنی خواہش نفس کے مطیع بن جاتے ہیں.

(۲)الکہف:۲۸اتباعِ ہوائے نفس کے حوالے سے دوسری آیت سورۃ الکہف کی ہے جس میں خاص طور پرحضور سے خطاب ہے.فرمایا : وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا ﴿۲۸﴾ ’’اور مت کہنا مانیے ایسے شخص کا جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جواپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہے اور اس کا معاملہ حدسے متجاوز ہو چکا ہے‘‘.ویسے تو جو بھی ایمان لا رہا ہے ‘ چاہے وہ غریب ہو ‘ مسکین ہو‘ غلام ہو ‘ سر آنکھوں پر اور اس کے بارے میں حضوراکرم کو یہ تعلیم دی گئی: وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸۸﴾ (الحجر) ’’اور اہل ایمان کے لیے اپنے کندھوں کو جھکا کر رکھیے‘‘ .لیکن ظاہر بات ہے کہ حضوراکرم کے ذہن میں یہ بھی تھا کہ اُمراء میں سے کوئی ایمان لے آئے تو ان فقراء اور غلاموں کی مشکلیں بھی آسان ہو جائیں گی‘لہٰذا امراء کی طرف حضور خصوصی توجہ فرماتے تھے . اسی ضمن میں وہ واقعہ پیش آیا عبداللہ ابن ام مکتوم کا‘جس پرگرفت ہو گئی: 

عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤی ۙ﴿۱﴾اَنۡ جَآءَہُ الۡاَعۡمٰی ؕ﴿۲﴾وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰۤی ۙ﴿۳﴾اَوۡ یَذَّکَّرُ فَتَنۡفَعَہُ الذِّکۡرٰی ؕ﴿۴﴾اَمَّا مَنِ اسۡتَغۡنٰی ۙ﴿۵﴾فَاَنۡتَ لَہٗ تَصَدّٰی ؕ﴿۶﴾وَ مَا عَلَیۡکَ اَلَّا یَزَّکّٰی ؕ﴿۷﴾وَ اَمَّا مَنۡ جَآءَکَ یَسۡعٰی ۙ﴿۸﴾وَ ہُوَ یَخۡشٰی ۙ﴿۹﴾فَاَنۡتَ عَنۡہُ 
تَلَہّٰی ﴿ۚ۱۰﴾ (عبس) 
’’تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا‘اس بات پر کہ آیا اُس کے پاس نابینا .اور (اے نبی ) آپ کو کیا معلوم شاید کہ وہ تزکیہ حاصل کرتا‘ یا وہ نصیحت حاصل کرتا اور وہ نصیحت اس کے لیے مفید ہوتی.لیکن وہ جو بے نیازی دکھاتا ہے‘ آپ اُس کی تو فکر میں رہتے ہیں.اور اگر وہ پاکی اختیار نہیں کرتا تو آپ پر کوئی الزام نہیں.اور وہ جوآپؐ کے پاس دوڑتا ہوا آیا ہے‘اور اس کے دل میں خشیت بھی ہے‘تواُس سے آپؐ استغناء برت رہے ہیں.‘‘

یہ کیا بات ہوئی کہ جو شخص چل کر آیا ہے‘جس کے اندر تزکیہ حاصل کرنے کا جذبہ ہے اس سے آپ ذرا بے اعتنائی فرما رہے ہیں اور وہ لوگ جن کو کوئی پروا نہیں ہے اور وہ آپ کی باتوں پر توجہ ہی نہیں دیتے توآپ ان کی طرف زیادہ توجہ کر رہے ہیں. یہاں بھی حضوراکرم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا ﴿۲۸﴾ ’’اور مت کہنا مانیے ایسے شخص کا جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جواپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہے اور اس کا معاملہ حدسے متجاوز ہو چکا ہے.‘‘

(۳)طٰہٰ:۱۶اتباعِ ہوائے نفس کے حوالے سے تیسری آیت سورئہ طٰہٰ کی ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خطاب کے ضمن میں آیا ہے : فَلَا یَصُدَّنَّکَ عَنۡہَا مَنۡ لَّا یُؤۡمِنُ بِہَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ فَتَرۡدٰی ﴿۱۶﴾ ’’تو (اے موسیٰ علیہ السلام !دیکھنا کہیں) تمہیں اس سے رو گرداں نہ کردے کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں رکھتا اور جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے‘ (اگر ایسا ہوا) تو تم ہلاک ہو جائو گے‘‘.حضور سے خطاب میں بھی یہی لفظ آ رہا ہے کہ ان کی بات مت مانیے اوریہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی کہا جا رہا ہے کہ کہیں یہ لوگ آپ کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کر دیں جو اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں.

(۴)القصص:۵۰سورۃ القصص میں بھی یہی بات فرمائی گئی ہے: وَ مَنۡ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَیۡرِ ہُدًی مِّنَ اللّٰہِ ؕ (آیت۵۰’’اور اُس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا جواپنی خواہشات کی پیروی کر رہا ہو‘اللہ کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر!‘‘اگراللہ کی ہدایت کے تابع چلتے ہوئے نفس کے تقاضے پورے کررہے ہو توٹھیک ہے‘لیکناس سے آگے بڑھ کر یہ دنیا ہی مطلوب ومقصود اور محبوب بن جائے‘ اور آپ کی ساری محنت‘ بھاگ دوڑ‘ ساری پلاننگ سب کچھ اسی کے لیے ہو رہی ہو تو یہ صورتِ حال سراسرگمراہی ہے. 

(۵)ص ٓ:۲۶سورۂ صٓ میں حضرت داؤد علیہ السلام سے کہا گیا: یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الۡہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ (آیت ۲۶’’(ہم نے کہا:) اے داؤدؑ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے‘ لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرواور خواہش نفس کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی.‘‘

(۶)المائدۃ:۴۹سورۃ المائدۃ میں حضور اکرم سے فرمایا گیا: وَ اَنِ احۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ (آیت۴۹’’اور (اے نبی !)فیصلے کیجیے ان کے مابین اس (شریعت) کے مطابق جو کہ اللہ نے اُتاری ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے‘‘. اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ کے اندر منافقین بھی تھے اور کچھ بہت کمزور ایمان والے بھی موجود تھے. اب ان میں سے کسی سے کوئی قابل گرفت غلطی ہو گئی توعبداللہ بن اُبی اُس کی سفارش کے لیے آرہا ہے یہ خزرج کا سردار تھا اور اس کی حیثیت اور وجاہت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے مدینے کا بادشاہ بنانے کا فیصلہ ہو چکا تھا اور اس کے لیے سونے کا تاج بھی تیارہو چکا تھا ‘لیکن نبی آخر الزماں حضرت محمد ‘دو جہانوں کے بے تاج بادشاہ آ گئے تو اس کی شہنشاہیت اور تاج پوشی کا سارا معاملہ دھرا کا دھرا رہ گیا. چنانچہ اس کا دل حضور کے خلاف حسد اور کدورت سے بھرا ہوا تھا اب اس سے بڑا حضور کادشمن اور کون ہو گا اب یہ کسی کمزور ایمان والے شخص کی سفارش لے کرآرہا ہے تو اس بارے میں رسول اللہ سے فرمایاگیا کہ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے اورآپ کا فیصلہ بالکل اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ہونا چاہیے.