سنت کا اتباع تو لازم ہے ‘البتہ آگے اس کے تین درجات ہیں:ایک تو سنتِ (۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب السُّنۃ‘ باب فی لزوم السُّنۃ. رسول( ) ہے‘ایک خلفائے راشدین ؓ کی سنتہے اور ایک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سنتہے . ایک بار آپ نے اپنی امت کے گمراہ فرقوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سب دوزخ میں ہوں گے‘ سوائے ایک فرقہ کے. صحابہؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول‘ وہ کون سا فرقہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ (۱’’جس پر میرا اور میرے صحابہ کا عمل ہے‘‘.یہاں آپؐ نے اپنے ساتھ صحابہ کوبھی جوڑ دیا . پھر صحابہ میں سے خاص طور پر خلفائے راشدین کے بارے میں علیحدہ سے فرمایا: عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ (۲’’تم پر لازم ہے مضبوطی کے ساتھ پکڑنامیری سنت کو اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو.‘‘

اب میں سنت رسول کی قسموں میں سے چند ایک گنوا دیتا ہوں.ایک وہ سنت ہے جس کو ہم سنت تشریعی کہیں گے کہ جس سے شریعت کے احکام ثابت ہوتے ہیں. وہ فرض ہے ‘ واجب ہے ‘سنت مؤکدہ ہے یا سنت غیر مؤکدہ ‘یہ سارے درجے علمائے کرام اور فقہائے عظام کے قائم کرنے کے ہیں ‘ ایک عام آدمی خود فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اس کے اندر درجہ بدرجہ کیا معاملہ ہے. بغرضِ تفہیم عرض کر رہا ہوں کہ آپ دائیں سے بائیں کی طرف جائیں تو ترتیب یوں ہوگی:فرض‘ واجب‘ سنت مؤکدہ‘ سنت غیر مؤکدہ‘ مستحب‘ مباح‘ مکروہ تنزیہی ‘ مکروہ تحریمی اور حرام. فرضسے حرام تک نو درجے ہیں اور ظاہر بات ہے کہ ہر درجے کا اپنا ایک حق ہے.

حضور اپنے معمولات میں جبلی تقاضے بھی پورے کرتے تھے‘ مثلاً کھانا کھاتے تھے. تواب کوئی یہ کہے کہ کھانا کھانا حضور کی سنت ہے ‘ تو یہ بات مناسب نہیں. یہ تو ایک جبلی تقاضا ہے جو آپ نے پورا کیا.البتہ آپ نے کچھ آداب سکھائے ہیں کہ ایسے کھاؤتو اس پر عمل کرنا یقینا سنت کے زمرے میں آتا ہے اور اس پر اجر بھی ملے گا.اسی طرح کھانے میںآپ کو کدو پسند تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کدو کھانا (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الایمان‘ باب ما جاء فی افتراق ھٰذہ الامۃ.

(۲) سنن الترمذی‘ابواب العلم‘ باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع. 
لازم ہے‘البتہ اگر کوئی حضور سے محبت کی وجہ سے اُن کی پسندیدہ چیز کھائے تو اللہ کے ہاں اس کا ثواب ملے گا.اسی طرح ایک عادی تقاضے ہیں جنہیں ’’سنت العادت‘‘ کہا جاتا ہے. مثلاًعادت کے مطابق ہمیشہ آپ نے تہبند باندھا. شلوار پیش کی گئی تو آپؐ نے اسے پسند فرمایا کہ یہ اچھی چیز ہے اور زیادہ ساتر ہے.رات کو آدمی سویا ہوا ہو توتہبند کے اندربے پردہ ہونے کا خطرہ رہتا ہے‘جبکہ شلوار میں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا.

اس کے علاوہ بعض چیزیں یا بعض افعال حضوراکرم کے ساتھ خاص ہیں جن کی پیروی لازم نہیں ہے‘بلکہ حضوراکرم نے حکماً ان کے کرنے سے روک دیا ہے.مثلاً صومِ وصال‘یعنی دو دن یا تین دن کا مسلسل روزہ بغیر افطار اور سحر ی کے. آج صبح روزہ رکھا ہے‘شام کو افطار نہیں کیا اور اس کے بعد بھی روزہ جاری ہے‘اگلی شام کو جاکر افطار کیا .یا تیسرے دن کے غروبِ آفتاب پر افطار کیا.اس طرح یہ دو دن یا تین دن کا مسلسل روزہ ہوگیا.حضوراکرم یہ روزہ رکھا کرتے تھے . صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے بعض نے یہ روزہ رکھنے کی اجازت چاہی تو آپ نے روک دیا .انہوں نے کہا کہ حضور آپ خودرکھتے ہیں اور ہمیں روکتے ہیں!تو آپ نے فرمایا: اَیُّکُمْ مِثْلِیْ اِنِّیْ اَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِ (۱’’تم میں سے کون میرے جیسا ہے؟میں رات گزارتا ہوں اس حال میں کہ میرا رب مجھے کھلاتا اورمجھے پلاتا ہے‘‘.وہ کیا روحانی غذا ہے جوآپ کو ملتی تھی‘ اس کا ہمیں اندازہ نہیں ہو سکتا‘ لیکن بہرحال رسول اللہ نے سختی کے ساتھ صومِ وصال رکھنے سے منع فرمادیا.

اسی طرح بعض چیزیں انسان کے علم اور تجربے سے متعلق ہیں. اہل مدینہ ’’تابیر نخل‘‘ کا معاملہ کرتے تھے . یعنی کھجور کے نرپھول اورمادہ پھولوں کو قریب قریب جوڑتے تھے تاکہ فرٹیلائزیشن ہوجائے. حضور نے کہا کہ تم ایسا نہ کرو تو کیا ہے؟اس لیے کہ فطرت اپنا انتظام خود کر لیتی ہے ‘تمہیں اس کے اندر دخل اندازی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟صحابہ کرامؓ نے جب تابیر نخل کا معاملہ نہیں کیا تو اس سے فصل کم ہو گئی.انہوں نے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الصوم‘ باب التنکیل لمن اکثر الوصال. حضور کو بتایاکہ ہم نے تابیر نخل کا عمل نہیں کیا‘لیکن اس سے فصل کم ہو گئی.اس پر آپ نے فرمایا: اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاَمْرِ دُنْیَاکُمْ (۲’’تم اپنے دنیوی معاملات زیادہ جانتے ہو‘‘.یعنی میں نے کوئی شریعت کا حکم نہیں دیا تھا‘بلکہ یہ دنیوی معاملات ہیں جو تجربے سے ثابت ہوتے ہوں اور وہ تم مجھ سے بہتر جانتے ہو.

الغرض سنت سے استنباط کرنا‘ استدلال کرنا‘نتیجہ نکالنا کہ کون سی سنت کس درجے کی ہے‘ اس کے لیے دین میں تفقہ کی ضرورت ہے اور حضور نے بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے لیے خاص طور پر تفقہ فی الدین کی دعا کی تھی.

اللہ تعالیٰ ہمیں دین کا فہم عطا فرمائے اور قرآن وسنت کے مطابق عمل کرنے اور اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے.

آمین یا ربّ العالمین! 
اَقُوْلُ قَوْلِیْ ھٰذَا وَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ والمُسلماتoo 
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الفضائل‘ باب وجوب امتثال ما قالہ شرعا …