واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید تقویٰ‘ خوف‘ خشیت اور انذار کی تلقین سے بھرا پڑا ہے. یوں کہیے کہ قرآن مجید میں انذار‘ تخویف اور خشیت الٰہی کا رنگ غالب ہے ‘لیکن اس کے ساتھ ساتھ رجا ء اور اُمید کے پہلو کو بھی قرآن نے نمایاں کیا ہے. اگر آپ موازنہ کریں کہ کتنی بار انذار کا ذکر آیا ہے اور کتنی مرتبہ رجائیت کا‘تو اس میں کوئی شک نہیں کہ خوف اور انذارکا تذکرہ رجائیت کی نسبت زیادہ ہے اور اس کی دوبڑی وجوہات اوراسباب ہیں ان اسباب کو سمجھنا بہت ضروری ہے ‘ اس لیے کہ اس حوالے سے عیسائیوں نے قرآن ‘ اسلام اور مسلمانوں پر اعتراض کیا ہے اور بظاہر ان کا اعتراض درست معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اور اسلام کی تعلیمات میں اللہ کے خوف پر زیادہ زور دیا گیا ہے‘ جبکہ انجیل میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم میں اللہ کی محبت کا وزن زیادہ ہے.یہ بات بہت حد تک صحیح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تقاریر‘ خطبات اور مواعظ میں خوف اور انذار کا رنگ بھی اگرچہ موجود ہے‘ لیکن غالب محبت ہے. اب عیسائیوں کا اعتراض یہ ہے کہ قرآن میں انذار کا پہلو کیوںغالب ہے؟

اس کے دو اسباب ہیں.پہلا سبب یہ ہے کہ قرآن مجیداگرچہ ابدی کلام ہے اور اس کی تعلیمات بھی ابدی ہیں‘لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن مجید ایک خاص وقت‘ ایک خاص علاقے اور ایک خاص ماحول میں نازل ہوا ہے اور ایک خاص قوم اس کی مخاطب اوّل تھی. اس قوم کی کیفیت یہ تھی کہ نہ تووہ کسی توحید سے واقف تھی‘ نہ کسی رسالت سے‘ نہ کسی شریعت اور آسمانی کتاب سے ‘ بلکہ وہ ہر اعتبار سے اُمی (اَن پڑھ)قوم تھی.مزید یہ کہ قوم کی اکثریت اخلاقی گراوٹ اور سیرت وکردارکی پستی کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی . ایسی صورتِ حال میں انذار کا رنگ غالب ہونا لازم تھا تاکہ لوگ جاگ جائیں اور ہوش میں آئیں.چنانچہ قرآن مجید میں انذار کے دل دہلا دینے والے اندازمذکور ہیں‘ مثلاً سورۃ الحاقہ اور سورۃ القارعہ کی ابتدائی آیات ملاحظہ ہوں: 

اَلۡحَآقَّۃُ ۙ﴿۱﴾مَا الۡحَآقَّۃُ ۚ﴿۲﴾وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡحَآقَّۃُ ؕ﴿۳﴾ 
(الحاقۃ) 
اَلۡقَارِعَۃُ ۙ﴿۱﴾مَا الۡقَارِعَۃُ ۚ﴿۲﴾وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡقَارِعَۃُ ؕ﴿۳﴾ 
(القارعۃ) 

اور سورۃ النبا کا پرجلال آغاز ملاحظہ ہو:

عَمَّ یَتَسَآءَلُوۡنَ ۚ﴿۱﴾عَنِ النَّبَاِ الۡعَظِیۡمِ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡ ہُمۡ فِیۡہِ مُخۡتَلِفُوۡنَ ؕ﴿۳﴾ 

بقولِ حالی :

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی 
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلاد ی!

چنانچہ قرآن اور اسلام میں انذار کا پہلو غالب ہونے کا ایک سبب تواس وقت کے حالات اور معاشرے کی اخلاقی پستی تھی‘جبکہ اس کا دوسرا سبب یہ ہے کہ محبت کے رمز آشنا بہت کم ہوتے ہیں اور عوام کی اکثریت کسی برے نتیجے کے پیش نظر ہی کسی کام سے باز آسکتی ہے.اسی وجہ سے قرآن مجید میں انذارکا پہلوغالب رکھا گیا ہے تاکہ لوگ عاقبت خراب ہونے کے ڈر سے گناہوں سے بچے رہیں.ورنہ محبت تو شاعری بن جاتی ہے. ذرا اندازہ کریں کہ آج کل عشق خداوندی کے دعوے تو بہت ہیں‘لیکن عمل زیرو ہے. اسی طرح عشق رسول  کے دعوے بہت ہیں اور نعتوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں‘لیکن عمل زیروہے!چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ رجائیت کے پہلو سے لوگوں کے غلط رُخ پر پڑ جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور عوام الناس کے اندر جوشے زیادہ ضروری ہے‘وہ خوف و انذارہے. جیسے سورۃ النازعات کی یہ آیت پہلے بھی ہمارے بیان میں آ چکی ہے : وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾ (النازعات) ’’اور جوکوئی ڈرتا رہا اپنے ربّ کے حضور کھڑا ہونے (کے خیال) سے اور اُس نے روکے رکھا اپنے نفس کو خواہشات سے‘‘.یعنی وہ شخص اس تصور سے ڈرتا رہا‘ کانپتا رہا‘ لرزتا رہا کہ ایک دن مجھے اپنے رب کے حضور میںپیش ہونا ہے اور اس ڈر سے اس نے اپنے نفس کو خواہشات سے روکے رکھا اورنفس کے منہ زور گھوڑے کی لگام کھینچ کر رکھی.