اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن میں تخویف اور تقویٰ کا رنگ غالب ہے‘البتہ محبت کا ذکر بھی قرآن میں موجود ہے اور رجائیت کے پہلوؤں کو بھی تفصیل سے قرآن میں بیان کیا گیا ہے . آج جو حدیث ہمارے زیر مطالعہ ہے‘ اس میں بھی رجائیت کا پہلو نمایاں ہے.آپ کو معلوم ہے کہ انسانوں کے اندر بھی کچھ قنوطی قسم کے‘ یاسیت پسند (pessimists) لوگ ہوتے ہیں . جیسے کئی بار میں آپ کو سائیکالوجی کی اصطلاحات کے حوالے سے بتاچکا ہوں کہ انسان مزاج کے اعتبار سے دو قسم کے ہوتے ہیں: دروں بین (introverts) اور بیروں بیں (extroverts) . اسی طرح بعض لوگ قنوطیت پسند(pessimist) ہوتے ہیں اوربعض رجائیت پسند (optimist) اوران دونوں کے درمیان عدل اور توازن بہت مشکل معاملہ ہے.جیسے دروں بین (introverts) اور بیروں بین (extroverts) کے درمیان دونوں خصوصیات کی حامل شخصیت (ambivert) بہت محال اور بہت مشکل ہے اور نوعِ انسانی میں صرف حضرت محمد رسول اللہ کی ذاتِ گرامی کو اس مقام پر پورا تمکن حاصل ہے‘ ا سی طرح بین الخوف والرجاء ایک مشکل معاملہ ہے کہ انسان میں خوف بھی رہے اور امید بھی. اس حوالے سے چوٹی (climax) کا قول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منقول ہے. آپؓ کہتے ہیں کہ اگر مجھے یہ بتادیا جائے کہ تمام انسان جنت میں جائیں گے سوائے ایک کے‘ یعنی صرف ایک شخص دوزخ میں جائے گا ‘تو مجھے خطرہ ہو گا کہ شایدوہ ایک میں ہی ہوں‘ اور اگر مجھے بتادیا جائے کہ تمام انسان دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے ‘یعنی جنت میں جانے والا صرف ایک ہی شخص ہو گا تو مجھے پھر بھی امید ہو گی کہ شاید وہ ایک میں ہی ہوں. یہ زروۂ سنام ہے بین الخوف والرجاء کی کیفیت کا.