’’رجاء‘ کا لفظ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اور قیامت کے حوالے سے بار بار آیا ہے. حالانکہ غور کیا جائے تو قیامت کا معاملہ بہت زیادہ خوف آور اور خوف پیدا کرنے والا ہے‘لیکن قرآن مجید میں اللہ کے ساتھ قیامت کو بھی رجا ء میں بریکٹ کیا گیا ہے. چنانچہ سورۃ الاحزاب کی مشہور آیت ہے : لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۲۱﴾ ’’اے مسلمانو! تمہارے لیے اللہ کے رسولؐ کی شخصیت مبارکہ میں ایک بہت عمدہ (کامل‘ معتدل اور ہر اعتبار سے متناسب)نمونہ موجود ہے (اور اس کامل نمونہ سے استفادہ وہی کر سکے گا) جو(۱) اللہ (سے ملاقات )کی امید رکھتا ہو‘(۲) آخرت کے حوالے سے بھی جس میں امید کا پہلو موجود ہو‘اور(۳) کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہو‘‘.قیامت سے امید رکھنے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ جہاں بدکاروں کے لیے قیامت ڈرنے کی جگہ ہے تو ان کے مقابلے میں نیکوکاروں کے لیے یہ مرحلہ تو بڑی بشارت کا ہو گا. اس ضمن میں سورۃ الانشقاق کی یہ آیات بڑی اہم ہیں: فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ۙ﴿۷﴾فَسَوۡفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیۡرًا ۙ﴿۸﴾وَّ یَنۡقَلِبُ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ؕ﴿۹﴾ ’’پس جس کو داہنے ہاتھ میں کتاب دی جائے گی تو اس سے آسان حساب لیا جائے گا ‘اور وہ واپس آئے گا (اس مقام سے یعنی کٹہرے سے) اپنے اہل کی طرف بہت خوش و خرم‘‘.گویاجنہوں نے اس دنیوی زندگی میں اللہ کے لیے قربانیاں دیں‘اللہ کے لیے محنتیں کیں توان کے لیے قیامت کا دن ایسے ہی ہے جیسے تنخواہ بانٹنے کا دن ہوتا ہے جس کا انسانشدت سے انتظار کر رہا ہوتا ہے.چنانچہ نیکوکار لوگوں کے لیے قیامت کے حوالے سے بھی رجاء کا پہلو ہوتا ہے کہ آج اللہ سے ملاقات ہو گی‘ آج اللہ کے سامنے پیشی ہو گی اورآج ہمیں نعامات سے نوازا جائے گا.

قرآن حکیم میں یہ مضمون کئی دوسرے مقامات پر بھی بیان ہوا ہے.مثلاً سورۃ الممتحنۃ میں فرمایا: لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡہِمۡ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ ؕ (آیت ۶’’تمہارے لیے یقینا ان (کے طرزِعمل) میں ایک بہت اچھا نمونہ ہے اُس کے لیے جو اللہ تعالیٰ (سے ملاقات) اور یومِ آخرت کی اُمید رکھتا ہو‘‘.سورۃ الکہف کی آخری آیت میں فرمایا گیا ہے : قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ﴿۱۱۰﴾٪ ’’(اے نبی !) ان سے کہہ دیجیے کہ میں تمہاری ہی طرح کا ایک انسان ہوں ‘(بس فرق یہ ہے کہ) مجھ پر وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے .پس جو بھی اللہ سے ملاقات کا امیدوار ہے اسے نیک عمل کرنے چاہئیں اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے.‘‘

سورۃ العنکبوت میں فرمایا گیا: مَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ ؕ (آیت۵’’جو کوئی بھی اللہ سے ملاقات کا امیدوار ہے وہ مطمئن رہے کہ اللہ کی ملاقات کا وقت آ کر رہے گا ‘‘. یعنی وہ لوگ جواللہ کی راہ میں جہاد کررہے ہیں ‘ مصیبتیں جھیل رہے ہیں‘ تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں ‘ وہ یہ سب اس امید میں کر رہے ہیں کہ ایک روز اللہ کے حضور میں حاضری ہو گی اوراللہ عزوجل ہمیں اپنی ان سرفروشیوں ‘ جانفشانیوں اور قربانیوں کااجر عطا فرمائے گا. شیطان وسوسہ اندازی کرتا رہے‘ لوگ کہتے رہیں کہ کس خیال میں پڑے ہوئے ہو ‘ کس نے آخرت کو دیکھا ہے‘مرنے کے بعد آج تک کسی نے آ کے کوئی خبر دی ہے‘ کس امید موہوم میں تم اپنے آپ کو ہلکان کر رہے ہو؟ پتا نہیں وہ دن آتا بھی ہے کہ نہیں آتا ‘اس لیے کہ آخرت تو ادھار کا سودا ہے‘ جبکہ دنیا نقد کا معاملہ ہے اور عام طور پر قاعدہ بھی یہی ہے کہ ’’نو نقد نہ تیرہ ادھار‘‘ یعنی تمہیں اگر کسی شے کے نو روپے نقد مل رہے ہیں تو وہ لے لو‘ تیرہ روپے میں ادھار کا سودا مت کرو! کیا پتا ادھار ملے نہ ملے اور رقم پوری مر جائے. یہ وسوسہ شیطان پیدا کرتا ہے کہ پتا نہیں وہ دن آتا بھی ہے کہ نہیں آتا.تو زیر مطالعہ آیت میں اسی حوالے سے فرمایا کہ انہیںیقین رکھنا چاہیے کہ وہ وقت معین آ کر رہے گا اور وہ اپنے رب کی ملاقات سے ضرور سرفراز ہوں گے. 

یہ مضمون سورۃ الزمر میں بھی آیا ہے: اَمَّنۡ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیۡلِ سَاجِدًا وَّ قَآئِمًا یَّحۡذَرُ الۡاٰخِرَۃَ وَ یَرۡجُوۡا رَحۡمَۃَ رَبِّہٖ ؕ (آیت۹’’بھلا وہ شخص جو بندگی کرنے والا ہے رات کی گھڑیوں میں ‘سجود و قیام کرتے ہوئے‘ وہ آخرت سے ڈرتا رہتا ہے‘ اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار بھی ہے!‘‘ پھریہی مضمون سورئہ بنی اسرائیل میں بھی آیا ہے کہ یہ مشرکین جن ہستیوں کو پکارتے ہیں ‘یعنی انبیاء‘ صدیقین ‘ اولیاء اللہ یا ملائکہ ‘وہ فی الواقع موجود ہیں اور ان کے وجود سے تو انکار نہیں ہے‘ باقی ان کے بارے میں جو کچھ انہوں نے عقائد یا تصورات گھڑ لیے ہیں‘ ان کے لیے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے‘ نہ عقل میں‘ نہ نقل میں اور نہ ہی وحی میں. فرمایا: اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ وَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَہٗ وَ یَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحۡذُوۡرًا ﴿۵۷﴾ ’’وہ لوگ جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب کے قرب کے متلاشی ہیں کہ ان میں سے کون (اُس کے) زیادہ قریب ہے اور وہ امیدوار ہیں اُس کی رحمت کے اور ڈرتے رہتے ہیں اُس کے عذاب سے.واقعتا آپؐ کے رب کا عذاب چیز ہی ڈرنے کی ہے‘‘.جیسے کہ حضوراکرم نے فرمایا:’’کوئی شخص محض اپنے عمل کی بنیاد پر جنت میں داخل نہیں ہو گا‘‘.کسی صحابیؓ نے بڑی ہمت کر کے پوچھ لیا کہ کیا حضور آپ بھی؟ فرمایا : وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَرَحْمَۃٍ (۱’’نہیں میں بھی نہیں‘ مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اوررحمت (کے دامن) میں ڈھانپ لے. ‘‘