بہرحال مطلوب یہی ہے کہ انسان ہر وقت خوف اوررجاء کے درمیان رہے البتہ ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کی شانِ رحیمی بایں طور بیان ہوئی ہے : اِنَّ رَحْمَتِیْ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب المرضی‘ باب تمنی المریض الموت. سَبَـقَتْ غَضَبِیْ (۱’’میری رحمت میرے غضب پر غالب آ گئی ہے‘‘.اس کی شرح اصل میں آج کی ہمارے زیر مطالعہ حدیث میں ہے‘جس میں اللہ کی ایک خاص شان بیان ہوئی ہے کہ وہ غنی ہے‘ بے نیاز ہے. جیسے سورۃ النساء میں فرمایاگیا: مَا یَفۡعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمۡ اِنۡ شَکَرۡتُمۡ وَ اٰمَنۡتُمۡ ؕ (آیت ۱۴۷’’(اے منافقو ذراسوچو!) اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے‘گااگر تم شکر اور ایمان کی روش اختیار کرو!‘‘ اللہ تعالیٰ‘ معاذ اللہ ‘کوئی ایذا پسند (sadist) نہیں ہے کہ کسی کو تکلیف دے کر اسے خوشی ہوتی ہو بلکہ وہ تو الغنی ہے یہ لفظ قرآن مجیدمیں آٹھ مرتبہ آیا ہے . کہیں کہا گیا: غَنِیٌّ حَلِیْمٌ ‘ کہیں غَنِیٌّ حَمِیْدٌ اورکہیں غَنِیٌّ کَرِیْـمٌ. کہیں غَنِیًّا آیا ہے ان سب کا مفہوم ایک ہی ہے کہ اللہ غنی ہے اور اس کی کوئی ضرورت نہیں .اس حوالے سے ایک حدیث ہم پڑھ چکے ہیں کہ اگر زمین اور آسمان کے تمام باسی‘ اوّلین بھی آخرین بھی‘ انسان بھی جن بھی‘ سب کے سب دنیا کے بدترین انسان جیسے بن جائیں تب بھی اللہ کی سلطنت میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور اگر تمام انسان‘ تمام جن‘ تمام اوّلین و آخرین‘ سب کے سب متقی ترین انسان جیسے بن جائیں تو اس سے بھی اللہ کی سلطنت میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا. یہ ہے اس کی شانِ استغناء.

اللہ تعالیٰ کی اسی شان کے بارے میں سورۂ آل عمران میں آیا ہے: 

وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۷﴾ 

’’اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر کہ وہ حج کریں اُس کے گھر کا‘ جو بھی استطاعت رکھتا ہو اس کے سفر کی.اور جس نے کفر کیا تو (وہ جان لے کہ) اللہ بے نیاز ہے تمام جہان والوں سے.‘‘ 

یعنی جو لوگ حج کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کریں تو گویا وہ ایک طرح کا کفر کر رہے ہیں‘جبکہ اللہ تعالیٰ غنی ہے اور اسے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ تم ضرور حج کے لیے جاؤ اور اس کے گھر کا طواف کرو. (۱) صحیح البخاری‘ کتاب التوحید‘ باب قول اللّٰہ تعالیٰ بل ھو قرآن مجید…