زیر مطالعہ حدیث میں درحقیقت دوچیزوں کو بیان کیا گیا ہے‘ایک ہے اللہ سے اُمید واثق رکھنا‘اور ایک ہے اللہ کی شانِ استغناء!

حدیث کے راوی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں. وہ فرماتے ہیں میں نے اللہ کے رسول  کو فرماتے ہوئے خود سنا یہ انداز ایسا ہے جو بڑا یقینی ہوجاتا ہے کہ میں نے خود سنا ‘اور اگر ’’عَنْ‘‘ ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ بات کسی اور صحابی سے ان تک پہنچی ہو بہرحال یہ حدیث قدسی ہے جس کی تعریف (definition) کئی مرتبہ میں آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں. اب ہم حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں.

رسول اللہ نے فرمایا: قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : یَا ابْنَ آدَمَ ! اِنَّکَ مَا دَعَوْتَنِیْ وَرَجَوْتَنِیْ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے ابن آدم! جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے امید باندھے رکھے گا‘‘ غَفَرْتُ لَکَ عَلٰی مَا کَانَ مِنْکَ وَلَا اُبَالِیْ ’’میں تجھے معاف کرتا رہوں گا‘چاہے تیرے اعمال جیسے بھی ہوئے‘ اور مجھے (تیرے گناہوں کی) کوئی پروا نہیں‘‘.یعنی تو جتنے گناہوں کا انبار بھی لے کر میرے پاس آ جائے گا تو میں اُن سب کو معاف کردوں گا‘مگر اس کے لیے دو شرائط ہیں.پہلی شرط ہے اِنَّکَ مَا دَعَوْتَنِیْ کہ جب تک مجھے پکارتے رہو گے‘ مجھ سے دعائیں کرتے رہو گے‘ مجھ سے استغفار کرتے رہو گے‘ میری مغفرت طلب کرتے رہو گے .اور دوسری شرط یہ ہے : وَرَجَوْتَنِیْ کہ مجھ پر اُمید رکھو گے کہ اللہ تعالیٰ غفورٌرحیم ہے اور وہ مجھ پر رحم فرماتے ہوئے میرے تمام گناہوں کو بخش دے گا .اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو خود فرماتا ہے کہ وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ (الاعراف:۱۵۶’’میری رحمت نے ہر شے کا احاطہ کیا ہوا ہے‘‘. چنانچہ جب تک مجھے پکارتے رہو گے اور مجھ سے امیدرکھو گے تو جو بھی کچھ تم نے خرابیاں یا گناہ کیے ہوں گے میں ان سب کو معاف کر دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہوگی.یہ ہے اللہ کی شانِ استغناء .

آگے فرمایا: یَا ابْنَ آدَمَ! لَــوْ بَلَغَتْ ذُنُوْبُکَ عَنَانَ السَّمَائِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِیْ غَفَرْتُ لَکَ ’’اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں اور تومجھ سے معافی مانگے تو میں تجھے معاف کردوں گا‘‘. آخری بات یہ فرمائی: یَاابْنَ آدَمَ ! اِنَّکَ لَوْ اَتَـیْـتَنِیْ بِقُرَابِ الْاَرْضِ خَطَایَا ثُمَّ لَقِیْـتَنِیْ ’’اے ابن آدم! اگر تو میرے پاس اتنے گناہ لے کر آئے کہ روئے زمین بھر جائے اور پھر تو مجھ سے ملاقات کرے‘‘ لَا تُشْرِکُ بِیْ شَیْئًا لَاَتَیْتُکَ بِقُرَابِھَا مَغْفِرَۃً ’’بشرطیکہ تو نے شرک نہ کیا ہوتو میں تیری اتنی ہی مغفرت کر دوں گا‘ ‘‘.گویا گناہوں کی مغفرت کے لیے شرطِ لازم ہے کہ بندے نے شرک نہ کیا ہو.

یہ مضمون سورۃ النساء میں دو مرتبہ آیا ہے : 

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾ 

’’یقینا اللہ اس بات کو ہرگز نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم تر جو کچھ ہے وہ جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا.اور جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا اس نے تو بہت بڑے گناہ کا افترا کیا.‘‘ 

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۱۱۶﴾ 

’’اللہ ہر گزنہیں بخشے گا اس بات کوکہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ‘ اور بخش دے گا اس کے سوا جس کے لیے چاہے گا.اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ تو گمراہ ہو گیا اور گمراہی میں بھی بہت دور نکل گیا.‘‘

یعنی کسی صورت بھی عام معافی کا اعلان نہیں ہے‘ بلکہ معافی کے لیے بنیادی اور لازمی شرط یہ ہے کہ انسان اللہ ہی کو پکارتا رہاہو اور اُس نے کسی اور کو نہ پکارا ہو. کہیں ’’غوث الاعظم‘‘ کو نہ پکارا ہو‘کسی ولی کو نہ پکارا ہو‘کسی نبی اور رسول کو نہ پکارا ہو‘ چنانچہ زیر مطالعہ حدیث کے آخر میں بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے ابن آدم !اگر تو میرے پاس زمین کے حجم جتنے گناہ لے کرآئے گااس حال میں کہ تو نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے لیے زمین کے حجم جتنی ہی مغفرت لے کر آؤں گا.