رحمت ِخداوندی کا سب سے بڑا مظہر : توبہ

زیر مطالعہ حدیث کے ضمن میں اب آخری بات کی طرف آتے ہیں .قبل ازیں میں نے آپ کو اللہ عزوجل کے دو فرمان سنائے: وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ ’’میری رحمت نے ہر شے کا احاطہ کیا ہوا ہے‘‘اور اِنَّ رَحْمَتِیْ سَبَـقَتْ غَضَبِیْ ’’میری رحمت میرے غضب پر غالب آ گئی ہے‘‘.اب سوچئے کہ اس رحمت ِخداوندی کا سب سے بڑا مظہر کیا ہے ؟ایک سوال آپ اپنے آپ سے کیجیے اور پھر اس کا جواب تلاش کیجیے. حضوراکرم بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سوال کیا کرتے تھے اور پھر خود ہی جواب دیتے تھے.مثلاًایک مرتبہ آپ صحابہ کرامؓ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے تو آپؐ نے پوچھا: اَتَدْرُوْنَ مَا الْمُفْلِسُ؟ ’’کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟‘‘ اب صحابہؓ نے جواب دیا : اَلْمُفْلِسُ فِیْنَا مَنْ لَا دِرْھَمَ لَـہٗ وَلَا مَتَاعَ ’’ہم تو اپنے ٭ اب یہ تقاریر’’حقیقت واقسامِ شرک‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہیں. (ادارہ) درمیان مفلس اس کو سمجھتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار نہ ہو ‘‘.حضور نے فرمایا: 

اِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ اُمَّتِیْ یَاْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِصَلَاۃٍ وَصِیَامٍ وَزَکَاۃٍ‘ وَیَاْتِیْ قَدْ شَتَمَ ھٰذَا وَقَذَفَ ھٰذَا وَاَکَلَ مَالَ ھٰذَا وَسَفَکَ دَمَ ھٰذَا وَضَرَبَ ھٰذَا‘ فَیُعْطٰی ھٰذَا مِنْ حَسَنَاتِہٖ وَھٰذَا مِنْ حَسَنَاتِہٖ‘ فَاِنْ فَنِیَتْ حَسَنَاتُہٗ قَبْلَ اَنْ یُـقْضٰی مَا عَلَیْہِ اُخِذَ مِنْ خَطَایَاھُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْہِ ثُمَّ طُرِحَ فِی النَّارِ 
(۱
’’قیامت کے دن میری اُمت کا مفلس وہ آدمی ہو گا کہ جونماز‘ روزے‘ زکوٰۃ وغیرہ سب کچھ لے کر آئے گا‘ لیکن اُس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی‘ کسی پر تہمت لگائی ہو گی ‘ کسی کا مال کھایا ہو گا‘ کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا‘ تو ان سب کو اس آدمی کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی‘ اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دیے جائیں گے ‘ پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا.‘‘

اسی طرح قرآن مجید بھی پہلے سوال کرتا ہے اور پھر خود ہی اس کا جواب بھی دیتا ہے.مثلاً سورۃ الصف میں اہل ایمان سے ایک سوال کیا گیا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾ ’’اے ایمان کے دعوے دارو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت کے بارے میں بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے چھٹکارا دلا دے؟‘‘ پھر ساتھ ہی اس کا جواب بھی دے دیا گیا: تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ ’’(وہ یہ کہ) تم ایمان لاؤ اللہ اور اُس کے رسول ؐ پر اور جہاد کرو اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ .یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو.‘‘

اسی طرح آپ بھی اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ اللہ کی رحمت کا سب سے بڑا مظہر کیا ہے؟ اللہ کی رحمت کا سب سے بڑا مظہر ’’توبہ‘‘ہے اوریہ وہ شے ہے جو عیسائیوں کو بہت بڑی ٹھوکر دے گئی ‘بایں طور کہ انہوں نے عقیدہ بنا لیا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے ایک خطا ہوگئی تھی اور اس کے بعد جو بھی انسان اس دنیا میں آتا ہے وہ اس خطا کا (۱) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تحریم الظلم. بوجھ لے کر آتا ہے.عیسائیوں کے اس تصور سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان بنیادی طور پر گناہگار ہے.اب اس کا ازالہ کیسے ہو؟تو اس کے لیے انہوں نے باطل پر باطل (ظُلُمٰتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ) کے مصداق یہ عقیدہ اخذ کیا کہ اللہ نے حضرت مسیحؑ کی صورت میں اپنا صلبی بیٹا دنیا میں بھیجا اور اسے لوگوں کی طرف سے کفارہ بنا کر (قربانی کے بکرے کی طرح )سولی پر چڑھوا دیا. اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ. نقل کفر کفر نباشد. اس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کو نہ جان سکے. سورۃ البقرۃ کے چوتھے رکوع میں قرآن بتاتا ہے کہ ان سے خطا تو ہوئی تھی لیکن پھر انہوں معافی طلب کی تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی. ازروئے الفاظ قرآنی: فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۳۷﴾ (البقرۃ) ’’پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے ربّ سے چند کلمات‘ تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی.یقینا وہی تو ہے توبہ کا بہت قبول کرنے والا‘ بہت رحم فرمانے ‘والا‘‘. اب کوئی بھی ابن آدم اپنے جدامجد آدمؑ کے گناہ کا بوجھ لے کر اس دنیا میں نہیں آتا.