شادی بیاہ کی تقریبات کے ضمن میں ایک اصلاحی تحریک

جمعرات ۲۷ /اگست ۱۹۸۱ء شام کو میری تیسری بچی کا عقد نکاح اپنے چچازاد کے ساتھ بفضلہ تعالیٰ بخیروخوبی انجام پایا. اس تقریب کی مختصر روداد یہ ہے کہ اس کے لیے میں نے صرف ایک اخباری اعلان پر اکتفا کیا تھا . (۱اس میں یہ صراحت بھی موجود تھی کہ اس موقع پر کسی خورد و نوش کا کوئی اہتمام نہیں ہو گا. اپنے قریب ترین اعزہ میں سے بھی کسی کو میں نے تعین کے ساتھ (by name) مدعو نہیں کیا تھا . مغرب کی نماز سے آدھ گھنٹہ قبل‘ جامع القرآن یعنی قرآن اکیڈمی (۳۶کے ‘ماڈل ٹاؤن ‘لاہور)کی جامع مسجد میں لاؤڈ سپیکر پر مصری قراء ت کا ایک ریکارڈ لگا دیا گیا. مہمان آتے رہے اور نہایت ادب اور سکون کے ساتھ بیٹہ کر استماعِ قرآن میں مشغول ہوتے رہے. اسی خاموشی کے ساتھ دولہا اور اس کے ساتھ والے لوگ بھی آئے اور بیٹہ گئے. بعدازاں نماز ہوئی جس کے بعد میں نے پندرہ بیس منٹ خطاب کیا. پھر خطبۂ نکاح پڑھا اور خود ہی ایجاب و قبول کا مرحلہ طے کرا دیا. مزید برآں حاضرین کی جانب سے خود ہی اپنے آپ کو مبارک باد دے کر اور خود ہی اسے قبول کر کے مجلس کے خاتمے کا اعلان کر دیا تاکہ کسی تاخیر کے بغیر معمول کے مطابق درس قرآن شروع ہو سکے. بعدازاں کوئی پانچ سات منٹ چھوہاروں کی تقسیم میں لگے اور اس کے بعد درس قرآن کا آغاز ہو گیا بچی بھی مہمان خواتین کے ہمراہ مسجد کے زنانہ ہال میں موجود تھی‘ اسے وہیں سے اس کے بڑے بھائیوں نے دولہا کے ساتھ رخصت کر دیا اور اس طرح یہ تقریب اختتام کو پہنچی.

اس پر انگریزی روزنامے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ نے بھی 
’’An Austere Marriage‘‘ 

(۱) اس لیے کہ میرے نزدیک دور حاضر میں نبی اکرم : کے فرمان مبارک ’’اَعْلِنُوْا ھٰذَا النِّکَاحَ‘‘ (نکاح کا اعلان عام کیا کرو) پر عمل کی موزوں ترین صورت یہی ہے! کا چوکھٹا نمایاں طور پر لگایا اور جناب م ش نے تو اپنی ڈائری (نوائے وقت ۳۰/ اگست ۱۹۸۱ء کے کالم) میں مجھے خوب ہی کانٹوں پر گھسیٹا اور ’’ایک ٹن وعظ کے مقابلے میں ایک اونس عمل زیادہ و زنی ہوتا ہے!‘‘ کی سرخی جمائی.(۱اب جب کہ اس طور سے ’’رسوائی‘‘ ہو ہی گئی ہے اور یہ معاملہ لوگوں کے علم میں آ ہی گیا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس پر کسی قدر مزید تفصیل سے روشنی ڈال دی جائے. کیا عجب کہ اس سے لوگوں کو کوئی عملی رہنمائی حاصل ہو جائے.

شادی بیاہ کی تقریبات اور لوازمات و رسومات کے روزافزوں طومار نے جس طرح ایک سماجی برائی کی شکل اختیار کر لی ہے اس کا شدید احساس ہر صاحب نظر اور ملک و ملت کا درد رکھنے والے انسان کو ہے. امیروں کے لیے تو یہ تقریبات و رسومات صرف ’’چونچلوں‘‘ یا پھر اپنے ’’کالے دھن‘‘ کے نمائش و اظہار کے ذرائع کی حیثیت رکھتی ہیں ‘لیکن عوام کی اکثریت کے لیے یہ ناقابل برداشت بوجھ یا بالفاظ دیگر پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بن گئی ہیں‘ جن کے باعث شادی میں تاخیر ہوتی ہے اور اس 
’’اُمّ الخبائث‘‘ (شادی کی تاخیر) کے بطن سے اخلاقی اور نفسیاتی امراض کا ایک لامتناہی سلسلہ جنم پاتا چلا جاتا ہے.

قرآن حکیم میں سورۃ الاعراف کی آیت ۱۵۷ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خطاب کے ضمن میں نبی اکرم کی جو بلند و بالا شانیں بیان ہوئی ہیں‘ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کو ناقابل برداشت بوجھوں اور ان طوقوں سے نجات دلائیں گے جو ان کی گردنوں میں پڑے ہوں گے 
وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ لہذا آپؐ کے نقش قدم پر چلنے کی خواہش اور آپؐ کے طریق کار پر عمل پیرا ہو کر معاشرے کی اصلاح کا داعیہ رکھنے والوں کا فرض عین قرار پاتا ہے کہ وہ لوگوں کو ان بوجھوں سے نجات دلانے کی کوشش کریں‘ خواہ اس میں ان کو کیسی ہی تکالیف اٹھانی پڑیں اور کتنی ہی مشکلات کا سامنا ہو.

اس ضمن میں جہاں تک ’’سادگی‘‘کے وعظ کا تعلق ہے تو وہ تو عام طور پر کہنے اور سننے میں آتا ہی رہتا ہے اور بسااوقات وقتی اور فوری طور پر اس کا اثر بھی سامعین شدت سے محسوس کرتے ہیں. لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کا کوئی عملی اثر مترتب نہیں ہوتا. اس کی وجہ بادنی ٰ تامل سمجھ میں آ جاتی ہے. یعنی ’’سادگی‘‘ ایک مبہم اور اضافی لفظ ہے جس کا کوئی معین مفہوم نہیں ہے. غرباء کے لیے اس لفظ کے معنی کچھ اور ہیں اور امراء کے لیے بالکل اور! تو جس اصلاحی کوشش 
(۱) یہ کالم ٹائٹل کے صفحہ ۲ پر ملاحظہ فرمائیں. کی بنیاد ایسے مبہم اور غیرمعین تصور پر ہو گی‘ اس کا حاصل و نتیجہ پیشگی ظاہر ہے.
راقم الحروف کو اس مسئلے کے ساتھ عملی سابقہ اولاً اس وقت پیش آیا جب ۱۹۶۶ء میں راقم نے لاہور میں دعوت رجوع الی القرآن کا آغاز کیا اور درس و مطالعۂ قرآن حکیم کے حلقے قائم کیے. ان حلقوں کے ذریعے جو لوگ راقم کے قریب آئے‘ ان میں فطری طور پر راقم کے ساتھ حسن ظن اور ایک گونہ عقیدت پیدا ہونی شروع ہوئی ‘جس کے نتیجے میں دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ نکاح خوانی کی فرمائشیں بھی آنی شروع ہوئیں. ابتدا میں تو میں نے اس سے احتراز کرنے کی کوشش کی‘ لیکن جب فرمائشوں نے تقاضے اور مطالبوں کی صورت اختیار کی تو چار و ناچار گھٹنے ٹیک دینے پڑے اور اپنے رفقاء و احباب کے بچوں اور بچیوں کے نکاح پڑھانے کا سلسلہ شروع کرنا پڑا.

اس سلسلے میں اولین بات تو میرے سامنے یہ آئی کہ ہم نے خطبۂ نکاح کو محض’’جنتر منتر‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے‘ حالانکہ خطبے کی اصل غرض و غایت تذکیر و نصیحت ہے. یہی وجہ ہے کہ علماء کو خطبۂ جمعہ کے ساتھ ’’خطابِ جمعہ‘‘ کا اضافہ کرنا پڑا تاکہ خطبۂ جمعہ کی اصل غرض و غایت اگر خود اس سے حاصل نہ ہو رہی ہو تو عربی زبان کے مقولے 
’’مَالَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ‘‘ کے مطابق اس سے یکسر محرومی قبول نہ کی جائے بلکہ اسے اضافی خطابِ جمعہ سے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے. چنانچہ اسی اصول کے تحت میں نے ’’خطبہ ٔ‘ نکاح‘‘ سے قبل ’’خطاب‘‘ کا سلسلہ شروع کیا جس میں ان آیات و احادیث کی مختصر تشریح بھی ہوتی تھی جو نکاح کے مسنون خطبے میں شامل ہیں اور کچھ عمومی دعوت و نصیحت بھی ہوتی تھی اور خاص طور پر حدیث مبارکہ اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ کے ضمن میں جہاں رہبانیت کی نفی ہوتی تھی‘ وہاں سنت کا وسیع تر تصور بھی سامنے رکھا جاتا تھا اور آخر میں نہایت زور دے کر کہا جاتا تھا کہ ’’اتباعِ سنت‘‘ کے پہلے قدم کے طور پر کم از کم شادی بیاہ کی تقریبات اور رسومات کے ضمن میں تو ہمیں یہ طے کر ہی لینا چاہیے کہ ان میں سے صرف وہی چیزیں باقی رکھی جائیں جن کا ثبوت آنحضرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مل جائے اور باقی تمام بعد کی ایجاد کردہ یا باہر سے درآمد شدہ رسومات کو پوری ہمت اور جرأت کے ساتھ پاؤں تلے روند دیا جائے. (۱مثلاً یہ کہ نکاح مسجد (۱) یہ بات بہت زیادہ قابل توجہ ہے ‘اس لیے کہ واقعہ یہ ہے کہ ’’اصلاح الرسوم‘‘ کے لیے واحد ممکن اور ٹھوس بنیاد صرف اور صرف ’’اتباع سنت‘‘ کا اصول ہے ‘اس کے سوا جو کوشش کی جائے گی وہ اسی طرح غیر مؤثر ہو کر رہ جائے گی جس طرح ’’سادگی‘‘ کا وعظ.میں ہونا چاہیے‘ جہیز اور بری وغیرہ کی نمائش بالکل نہیں ہونی چاہیے‘ گھروں کی تزئین و آرائش اور بالخصوص روشنی وغیرہ پر اسراف سے بچنا چاہیے اور دعوتِ طعام صرف ایک ہونی چاہیے‘ یعنی دعوتِ ولیمہ. لڑکی والوں کی جانب سے نکاح کے موقع پر دعوت طعام کا سلسلہ بالکل بند ہونا چاہیے‘ وغیرہ وغیرہ.
مسلسل پانچ چھ برس تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا کہ لوگ یہ باتیں سن کر نگاہیں نیچی کر لیتے تھے‘ فوری تأثر کے آثار بھی ان کے چہروں پر ظاہر ہوتے تھے. بعد میں بہت سے لوگ اس وعظ کی تائید و تصویب ہی نہیں‘ تحسین بھی فرماتے تھے. لیکن جب موقع آتا تھا تو ’’زمین جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کے مصداق پر نالہ وہیں گرتا تھا اور بالکل ایسے محسوس ہوتا تھا کہ بیل گاڑی کا اس ’’لیک‘‘ سے ہٹنا تقریبا ًناممکن ہے. تاآنکہ ۱۹۷۳ء کے اواخر میں میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر ابصار احمد انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کی تکمیل کر کے واپس آ گئے اور ان کی شادی کا مرحلہ آیا. وہ ہم تمام بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں. گویا ہمارے خاندان کی ایک نسل کی سطح پر یہ آخری شادی تھی. میں نے اس موقع پر ایک فیصلہ کن اقدام کا عزم کیا. اس لیے کہ میرے سامنے معاملے کی صورت یہ آئی کہ جو کچھ دوسروں کو بطور نصیحت کہتے رہے ہو‘ اب یا تو خود اس پر عمل کر کے دکھاؤ ورنہ ان باتوں کا کہنا بھی چھوڑ دینا چاہیے. گویا بقول علامہ اقبال : ؏ 

یا سراپا نالہ بن جا‘ یا نوا پیدا نہ کر!

خوش قسمتی سے جہاں رشتہ طے پایا تھا‘ وہ خود بہت پختہ دینی مزاج کے حامل لوگ تھے. گویا اصل مسئلہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی حل کر دیا تھا. چنانچہ بحمداللہ کوئی دقت پیش نہ آئی اور جوں ہی میں نے ان کے سامنے پورا معاملہ رکھا‘ انہوں نے برضا و رغبت آمادگی کا اظہار کر دیا. اگرچہ بعد میں دوسرے اعزہ و اقارب نے معاملے کو سخت ردّ و قدح اور طعن و استہزاء کا موضوع بنایا اور کسی قدر تلخی بھی پیدا ہو گئی تاہم بحمداللہ یہ شادی ٹھیٹھ سنت نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے مطابق ہوئی اور اس طرح بفضلہ تعالی 
ٰ Charity begins at home والا معاملہ ہو گیا.

اس مرحلے پر پہلے اقدام کے طور پر راقم نے تین چیزوں پر زور دینے کا فیصلہ کیا. ایک یہ کہ نکاح مسجد میں منعقد ہو‘ دوسرے یہ کہ لڑکی والوں کی طرف سے کوئی دعوتِ طعام نہ ہو‘ اور تیسرے یہ کہ بارات کا تصور بالکل ختم کر دیا جائے. ان تینوں کی وضاحت کے ضمن میں جو مختصر تحریر راقم کے 
قلم سے نکل کر ’’میثاق‘ ‘لاہور کی اشاعت بابت فروری ۱۹۷۴ء کے ’’تذکرہ و تبصرہ‘‘ کے صفحات میں شائع ہوئی (اور جو بعد میں ایک علیحدہ چار ورقے کی صورت میں طبع ہو کر ہزاروں کی تعداد میں تقسیم ہوئی) وہ من وعن درج ذیل ہے.

۱… ’’جہاں تک نکاح کی تقریب کے مساجد میں انعقاد کا معاملہ ہے وہ ایسی مشکل بات نہیں ہے. اکثر لوگ اس پر جلد ہی راضی ہو جاتے ہیں اس لیے کہ بات بڑی واضح ہے. چنانچہ بہت سے مواقع پر جب دو باتیں (جن کا ذکر آگے آئے گا) اس ضمن میں کہی گئیں تو واقعہ یہ ہے کہ جملہ حاضرین کی پیشانیاں عرقِ ندامت سے نم ہو گئیں اور ان کے چہروں پر حقیقی تأثرکے اثرات نمایاں ہو گئے. ایک یہ کہ جب تاجدارِ عالم اور محبوبِ ربّ العالمین کی لخت جگراور دختر نیک اختر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکا نکاح مسجد میں ہوا تو ہم میں سے کون ہے جو اپنے آپ کو آنحضور سے زیادہ باعزت یا اپنی بیٹی کو 
سَیِّدَۃُ نِسَاءِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ سے افضل سمجھتا ہو اور اسے مسجد میں نکاح پڑھوانے سے عار محسوس ہو؟ اور دوسرے یہ کہ ہمیں شرم آنی چاہیے کہ عیسائیوں نے‘ اس کے باوجود کہ ان کا اپنے مذہب سے لگاؤو نہ ہونے کے برابر ہے‘ تاحال کلیسا کا درجہ اس قدر بلند رکھا ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں نکاح کے لیے وہاں حاضر ہوتے ہیں اور ہمارا یہ حال ہے کہ ہم نے مسجد کا مقام اس درجے گرا دیا کہ وہاں نکاح پڑھوانے کو عار جانتے ہیں ‘حالانکہ شریعت نے واضح راہ کھول دی ہے کہ لڑکی کی طرف سے اس کا وکیل دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح خواں کو اجازتِ ’’ایجاب‘‘ دیتا ہے. اس طرح جب لڑکی کا خود مجلسِ نکاح میں موجود ہونا ضروری نہیں تو آخر اس کے گھر پر اس تقریب کا انعقاد کیوں ضروری سمجھ لیا گیا ہے؟ راقم کے خیال میں یہ دونوں دلیلیں اتنی قوی اور مؤثر ہیں کہ اگر ان کو عام کردیا جائے تو اکثر لوگ تقریب نکاح کے مسجد میں انعقاد پر برضا و رغبت آمادہ ہو جائیں گے. ویسے دو مزید دلیلیں جو یقینا قابل لحاظ ہیں‘ یہ ہیں کہ اوّلاً نکاح کے بعد جو دعائے خیر دولہا اور دلہن کے لیے کی جاتی ہے اس کا بہترین ماحول مسجد میں ہوتا ہے نہ کہ شادی والے گھر کی ہنگامہ خیز فضا میں. اللہ کے کسی گھر میں کسی نماز کے معاً بعد یہ تقریب منعقد ہو اور اس کے بعد اس پاکیزہ ماحول میں نئے گھر کی آبادی اور خوشحالی اور دین و ایمان کی سلامتی اور باہمی الفت و محبت کی دعا کی جائے تو امید واثق ہے کہ اس کی تاثیر کم از کم دوچند ہو جائے گی‘ اور ثانیاً یہ کہ اس سے شامیانوں‘ قناتوں‘ قالینوں‘ صوفوں اور کرسیوں اور رنگا رنگ قسم کی آرائشوں پر صرف ہونے والا پیسہ بچ جائے گا جسے کسی اور نیک کام کے لیے صرف کیا جا سکتا ہے. ۲… نکاح کے موقع پر دعوتِ طعام سے احتراز کا معاملہ البتہ ذرا کڑوی گولی ہے جو آسانی سے حلق سے نہیں اُترتی‘ لیکن ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ پہلے معاملے سے بھی زیادہ صاف اور واضح ہے.

اس سلسلے کی ایک دلیل تو خالص دینی اور مذہبی ہے‘ یعنی یہ کہ ہمارے نبی کریم نے ہمیں زندگی کے ہر گوشے سے متعلق مفصل ہدایات دے دی ہیں‘ یہاں تک کہ ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے نبی نے ہمیں استنجا اور طہارت تک کی بھی مفصل تعلیم دی ہے ‘تو کیا کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شادی بیاہ ایسے معاملات میں حضور کی جانب سے‘ معاذ اللہ‘ کوئی کوتاہی رہ گئی ہے جس کی تلافی کی کوشش ہمیں خود کرنی ہے؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہو اور یقینا نفی ہی میں ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ جب آنحضور نے شادی کے ضمن میں دعوتِ ولیمہ کی تاکید فرمائی اور اس کی اس لازمی برائی کا ذکر کرنے کے باوجود کہ 
بِئْسَ الطَّعَامُ طَعَامُ الْوَلِیْمَۃِ یُدْعٰی اِلَیْہِ الْاَغْنِیَاءُ وَیُتْرَکُ الْمَسَاکِیْنُ (یعنی وہ دعوتِ ولیمہ بھی کیا ہی بری دعوت ہے جس میں صاحب حیثیت لوگوں کو بلایا جاتا ہے اور مسکینوں سے صرفِ نظر کر لیا جاتا ہے) یہ مثبت حکم بھی دیا کہ اِذَا دُعِیَ اَحَدُکُمْ اِلَی الْوَلِیْمَۃِ فَلْیَاْتِھَا (جب تم میں سے کسی کو ولیمے میں بلایا جائے تو وہ ضرور جائے) ساتھ ہی مزید تہدید بھی فرمائی کہ فَمَنْ لَّمْ یَاْتِ الدَّعْوَۃَ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (یعنی جو دعوت میں (بلاعذر) شریک نہ ہو گا اس نے گویا اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا ارتکاب کیا). واضح رہے کہ یہ تمام حدیثیں ’’مسلم شریف‘‘ سے ماخوذ ہیں.

پس اگر نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کے یہاں بھی دعوتِ طعام کوئی اچھا کام ہوتا اور اس میں کوئی بھی خیر کا پہلو موجود ہوتا تو کیا اللہ کے رسول ہمیں اس کا حکم نہ دیتے؟ یا کم از کم درجۂ استحباب ہی میں اس کا ذکر نہ فرماتے؟ اور جب اس کا کوئی ذکر ہمیں کسی حدیث میں نہیں ملتا تو کیا یہ ایک خواہ مخواہ کی بدعت نہیں؟ اور کیا یہ اُن اِصر اور اَغلال کے قبیل کی چیز نہیں جن کے بوجھ سے انسانوں کی گردنوں کا آزاد کرانا مقاصد نبوت میں شامل ہے.

دوسری دلیل وہ ہے جو ہر صاحب عقل سلیم کو اپیل کرے گی‘ یعنی یہ کہ شادی کا موقع لڑکی والوں کے لیے ویسا کھلی خوشی کا موقع نہیں ہوتا جیسا لڑکے والوں کے لیے ہوتا ہے. لڑکے کے لیے یہ خانہ آبادی کا موقع ہوتا ہے اور لڑکے والے گھر میں ایک فرد کا اضافہ ہو رہا ہوتا ہے‘ لہذا اصل خوشی وہاں ہوتی ہے (یہی وجہ ہے کہ شارع علیہ السلام نے دعوتِ عرس کا حکم لڑکے ہی 
کو دیا). لڑکی کے والدین کو اس کی شادی کے موقع پر اگرچہ اس پہلو سے ایک احساس اطمینان ضرور ہوتا ہے کہ ایک اہم فرض ادا ہو گیا اور ذمہ داری کا ایک بھاری بوجھ کاندھے سے اُتر گیا ‘لیکن صحیح معنوں میں ان کے یا لڑکی کے بھائی بہنوں کے لیے یہ خوشی کا موقع ہرگز نہیں ہوتا‘ بلکہ عام مشاہدہ یہ ہے کہ لڑکی کی رخصتی کے وقت سب اہل خانہ اشکبار ہوتے ہیں. گھر کا ایک فرد‘ ماں باپ کی لاڈلی اور ناز و نعم سے پلی ہوئی بچی‘ بہنوں اور بھائیوں کی پیاری ماں جائی کا گھر سے رخصت ہونا ظاہر ہے کہ ہرگز خوشی کی بات نہیں. اس پر مستزاد ہیں مستقبل کے اندیشے جو ہر طرح کے حزم و احتیاط کے باوجود بہرحال بالکل ختم کسی طرح نہیں ہو سکتے کہ کیا معلوم نباہ ہو یا نہ ہو اور بیل منڈھے چڑھے یا نہ چڑھے. ان حالات میں اس گھر پر اور ان ہی گھر والوں کے ہاتھوں قورمے اور متنجن اڑانا یقینا بڑی ہی دناء تِ طبع او ر سفلہ مزاجی کا معاملہ ہے. ایک غیرت مند اور باہمت انسان کے لیے یہ چیز‘ الاآنکہ ذہن ادھر منتقل نہ ہوا ہو‘ بڑی ہی قابل حذر ہے.

۳… اب اگر یہ دونوں باتیں اظہر من الشمس ہیں : یعنی نکاح کی تقریب مسجد میں ہو اور اس موقع پر دعوتِ طعام کو پروگرام سے خارج 
(eliminate) کر دیا جائے تو خود بخود بارات کا پورا تصور ہی ختم ہو جاتا ہے ‘اور واقعہ یہ ہے کہ یہ ہے ہی ختم کیے جانے کے لائق‘بلکہ صد لائق! خدا کا شکر ہے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی احادیث کے پورے ذخیرے‘ یہاں تک کہ جتنی عربی راقم کو آتی ہے‘ کم از کم اس کی پوری لغت میں کوئی لفظ ایساموجود نہیں ہے جس کا ترجمہ لفظ ’’بارات‘‘ کیا جا سکے. اور جس طرح یہ لفظ خالص‘عجمی ہے اسی طرح اس کا پورا تصور بھی خالص عجمی ہے اور اس کا وہ نقشہ تو خالص ہندوانہ ہے جو ہمارے ذہنوں میں شادی بیاہ کے لوازم کی حیثیت سے رچ بس گیا ہے کہ‘ایک جتھے کی صورت میں جمع ہو کر اور باقاعدہ ’’چڑھائی‘‘ کے انداز میں لڑکی والے کے گھر جانا اور پھرلڑکی کا ڈولا لے کر ’’فاتحانہ‘‘ انداز سے لوٹنا ‘ جس کی بیخ کنی لازماً کی جانی چاہیے.

بارات کا متذکرہ بالا تصور نہ صرف یہ کہ خالص عجمی ہی نہیں خالص ہندوانہ ہے ‘بلکہ ذرا غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ بڑی کم ظرفی کا مظاہرہ بھی لیے ہوئے ہے. بڑی شان و شوکت کے ساتھ دندناتے ہوئے جانا اور لڑکی والوں پر پورا رعب جھاڑتے ہوئے بطرز استحقاق پلاؤ زردہ اڑانا اور پھر فاتحانہ شان میں ’’مالِ غنیمت‘‘ سے لدے پھندے واپس آنا! حیرت ہے کہ کیوں لوگوں کو محسوس نہیں ہوتا کہ ان چیزوں کی اس دین سے کسی طور پر کوئی 
مناسبت نہیں ہو سکتی جو ہر معاملے میں شرافت و مروّت‘ وقار و متانت اور دوسروں کے جذبات کے پاس و لحاظ کی تعلیم دیتا ہے.

بہرحال شادی بیاہ کے سلسلے میں یہ وہ ناپاک تثلیث 
(unholy trio) ہے جو مل جل کر ایک وحدت بن گئی ہے‘ یعنی عیسائیوں کے قول کے مطابق توحید بھی ہے اور تثلیث بھی (تین میں ایک اور ایک میں تین) اور بہتر یہی ہے کہ تینوں کی جڑوں پر بیک وقت ضرب کاری لگائی جائے‘ ورنہ اگر کسی ایک کی بیخ کنی پر اکتفا ہوئی تو باقی دونوں فوراً اس تیسری کو بھی از سر نو زندہ کر لیں گے. اس سلسلے میں بعض لوگوں کا یہ خیال بالکل درست نہیں ہے کہ رفتہ رفتہ اور تدریجاً اصلاح کی طرف قدم بڑھائے جائیں. ایسے معاملات میں ایک ہی بار بڑا اقدام مفید بھی رہتا ہے اور پائیدار بھی! ‘‘

مجھے خوب اندازہ تھا کہ لوگ ان باتوں کو عقلی اور منطقی اعتبار ہی سے نہیں دلی طور پر بھی تسلیم کر لیں گے ‘لیکن جب موقع آئے گا تو ’’مجبوریوں‘‘ کا ایک کوہ گراں ان کے سامنے آن کھڑا ہو گا اور وہ مجھے بھی ہر طرح مجبور کریں گے کہ ان تقاریب میں شرکت کروں. لہذا پیش‘بندی کے طور پر راقم نے اپنی ذات کی حد تک تین پختہ فیصلے کر کے ان کا ’’میثاق‘‘ کے صفحات میں اعلان بھی کر دیا اور جامع مسجد خضراء سمن آباد کے اجتماع جمعہ میں بھی. وہ تین فیصلے یہ تھے کہ :

(۱) راقم الحروف آئندہ نہ کسی بارات میں شامل ہو گا. 
(۲) نہ نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کے ہاں کسی دعوتِ طعام میں شریک ہو گا . 
(۳) نہ کسی ایسی تقریب نکاح میں شرکت کرے گا جو مسجد میں منعقد نہ ہو.
مجھے اعتراف ہے کہ اس معاملے میں کسی قدر شدت کی صورت پیدا ہوئی ‘لیکن میں پوری طرح مطمئن ہوں کہ اس کے بغیر معاملہ کسی طرح ٹس سے مس نہ ہوتا. الحمد للہ کہ میرے رفقاء و احباب میں بہت سے لوگوں نے اس معاملے میں میرا پورا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں اس اصلاحی کوشش نے ایک تحریک کی صورت اختیار کر لی. بہت سے دوسرے احباب جو پورا ساتھ نہ دے سکے ان کے ساتھ میں نے ایک درمیانی صورت اختیار کر لی کہ نکاح کا انعقاد انہوں نے مسجد میں کر لیا جس میں میری شرکت ہو گئی. بعدازاں کسی دعوت ِطعام کا اہتمام انہوں نے کیا جس میں میری عدم شرکت کو انہوں نے خندہ پیشانی سے گوارا کر لیا اور ان کی ’’مجبوریوں‘‘ کے پیش نظر میں نے بھی ان پر نکیر نہ کی.

قریبی عزیزوں اور رشتہ داروں کے حلقے میں البتہ مجھے زیادہ سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا.اس کے نتیجے میں شکررنجیاں بھی ہوئیں‘ تعلقات کا انقطاع بھی ہوا اور بعض بچپن کی منگنیاں بھی ٹوٹیں ‘لیکن
الحمدللہ والمنۃ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان تمام چیزوں کو برداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائی اور میرے پائے ثبات میں لغزش نہ آنے دی.

اس معاملے میں میرے لیے سب سے کڑا امتحان اپنی سب سے بڑی بچی کی شادی کے موقع پر پیش آیا. مجھے خوب اندازہ تھا کہ اس موقع پر خواہ میں اپنی طے کردہ ساری پابندیاں پوری طرح نباہ لوں‘ لیکن اگر رخصتی کے موقع پر میں نے دولہا اور ان کے چند عزیزوں کی تواضع صرف ٹھنڈے یا گرم مشروب سے بھی کر دی تو بات کا بتنگڑ بن جائے گا اور سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا. چنانچہ اللہ تعالیٰ کی توفیق و تائید سے میں نے ایک اور انقلابی قدم اٹھایا‘ یعنی یہ کہ بچی کو بھی جمعہ کو مسجد دارالسلام باغ جناح لے گیا. نماز جمعہ کے بعد نکاح پڑھایا اور اللہ ہی کے گھر سے اس کی رخصتی عمل میں آ گئی. اس طرح میرے گھر پر دو چار افرادکا بھی اس صورت میں آنا نہ ہوا جس پر کھینچ تان کر کے بھی ’’بارات‘‘ کے لفظ کا اطلاق کیا جا سکتا!

اس کے بعد بڑے بچے کی شادی کا مرحلہ آیا تو ایک طرف تو اس کے لیے جو ’’بارات‘‘ کراچی گئی وہ کل ڈھائی افرادپر مشتمل تھی‘ یعنی دولہا‘ اس کی والدہ اور سب سے چھوٹا بھائی (راقم خود اُن دنوں دعوتی و تنظیمی سلسلے میں پہلے ہی سے کراچی میں تھا) .دولہا کے دو حقیقی بھائی اور کوئی حقیقی بہن بھی اس ’’بارات‘‘ میں شامل نہ تھی.پھر یہ کہ جس جمعہ کو نماز جمعہ کے متصلا ًبعد عقد نکاح ہونا تھا‘ اسی صبح کو ٹرین سے یہ لوگ کراچی پہنچے اور اسی شام دلہن کو لے کر لاہور واپس ہو گئے. دوسری طرف رفیق مکرم قاضی عبدالقادر صاحب نے (جن کی بچی سے عقد نکاح ہونا تھا) راقم کی قائم کردہ مثال پر پورا عمل کر کے دکھایا اور اپنے قریب ترین اعزہ و اقارب کو بھی گھر پر مدعو نہیں کیا بلکہ مسجد ہی سے بچی کو رخصت کر دیا.

اس کے بعد بحمداللہ سالِ رواں کے دوران راقم اپنی مزید دو بچیوں کی ذمہ داری سے اسی طور سے سبکدوش ہو چکا ہے. 
اسی سلسلہ کی آخری یعنی حالیہ تقریب میں جس کے حوالے سے گفتگو کا آغاز ہوا تھا‘ راقم 
نے ایک نہایت مختصر خطاب کیا تھا جس کے بارے میں جناب م ش نے ازراہ ذرہ نوازی یہ فرمایا ہے کہ ’’میں نے ڈاکٹر صاحب کے ہزاروں کی تعداد میں مواعظ حسنہ میں شرکت کی ہے لیکن اس موقع پر میری روح نے ان کی تقریر دل پذیر سے جو اثرات قبول کیے وہ انمٹ تھے‘‘. اس میں راقم نے ایک تو آنحضور کی اسی شان مبارکہ کے حوالے سے جو وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ کے الفاظ قرآنی میں بیان ہوئی ہے‘ حاضرین کو جرأت مندانہ اقدام کی ترغیب دلائی تھی اور دوسرے سورۃ الانشراح کی آیات مبارکہ فَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ۙ﴿۵﴾اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ؕ﴿۶﴾ کے حوالے سے تَحْدِیْثاً لِلنِّعمَۃ عرض کیا تھا کہ اپنی ان مساعی کے ضمن میں جس اخروی اجر و ثواب کا امیدوار میں ہوں اس کا تو میں محتاج ہوں ہی رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ ﴿۲۴﴾ (القصص) اس دنیا میں جو نقد انعام مجھے ملا ہے وہ ‘ وہ آسانی اور سہولت ہے جس کے ساتھ میں تابڑ توڑ انداز میں اپنی ان پہاڑ ایسی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو گیا ہوں جن کا تصور بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگوں پر لرزہ طاری کر دیتا ہے.

واقعہ یہ ہے کہ آج جب میں غور کرتا ہوں تو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ اگر مجھے اپنی ان ذمہ داریوں کو زمانے کے دستور و معیار کے مطابق نبھانا ہوتا تو میرے لیے اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہ رہتا کہ جسم و جان کی ساری توانائیاںصرف پیسہ کمانے کے لیے نچوڑ دیتا. نتیجتاً اللہ کے دین اور اس کی کتاب عزیز کی کسی خدمت کے لیے نہ میرے پاس کوئی وقت بچتا نہ قوت و صلاحیت. یہ سراسر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ایک جانب مجھے اس فیصلے کی توفیق ارزائی فرمائی کہ میرے جسم و جان کی تمام توانائیاں اور صلاحیتیں اللہ کے دین متین اور بالخصوص اس کی کتاب عزیز کی خدمت کے لیے وقف رہیں گی تو دوسری جانب میری توجہ اتباع سنت کے اس رخ کی طرف بھی مبذول کر دی اور مجھے شادی بیاہ کے ’’اِصر‘‘ اور ’’اَغلال‘‘ کے خلاف جہاد کا بیڑا اٹھانے کی توفیق بھی مرحمت فرما دی. نتیجہ یہ ہے کہ آج میں خود اپنے ذاتی حالات میں اللہ تعالیٰ کے عظیم وعدوں‘ یعنی وَ نُیَسِّرُکَ لِلۡیُسۡرٰی ۚ﴿ۖ۸﴾ (الاعلیٰ) اور فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡیُسۡرٰی ؕ﴿۷﴾ (الّیل) کی صداقت و حقانیت کا مشاہدہ کر رہا ہوں کہ تین سال کے اندر اندر اپنے چار بچوں کی ذمہ داریوں سے اس طرح سبکدوش ہو گیا ہوں کہ کسی بار یا گرانی کا احساس تک نہیں ہوا. فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَالْمَنَّۃ !! جہاں تک ’’جہیز‘‘ کا تعلق ہے میرے نزدیک یہ بھی سراسر غیر اسلامی اور خالص ہندوانہ ذہنیت کا مظہر ہے. تاہم ابتداء ً میں نے اس کے ضمن میں صرف ’’عدم نمائش‘‘ پر زور دیا تھا. اب اللہ ہمت دے اور رفقاء و احباب کمر ہمت کس لیں تو اس ضمن میں بھی مزید پیش قدمی ضروری ہے. اس سلسلے میں میرا اپنا جو معاملہ رہا ہے اس موقع پر اسے بیان کر دینے میں بھی ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں ہو گا اور وہ یہ کہ اگرچہ میری پہلی دو بچیاں بھی جو کچھ لے کر میرے گھر سے رخصت ہوئیں اس پر بھی موجودہ زمانے کے کسی بھی معیار کے مطابق ’’جہیز‘‘ کا اطلاق نہیں ہو سکتا ‘تاہم حالیہ شادی میں یہ معاملہ بھی بحمداللہ قدرِ مطلوب سے بہت قریب پہنچ گیا ہے. یعنی میری یہ بچی صرف ایک اٹیچی بھر کپڑے اور سوا دو تولے کا طلائی زیور لے کر میرے گھر سے رخصت ہوئی ہے.

خداگواہ ہے کہ سطورِ بالا میں جو کچھ تحریر ہوا ہے اس میں نہ ’’عُجب‘‘ کو دخل ہے نہ ہی اس سے ’’ تَعلِّی‘‘ مقصود ہے. ان تمام تفاصیل سے مقصود صرف یہ ہے کہ کچھ لوگ کمرہمت کس لیں اور اللہ کی تائید و توفیق کی امید کے سہارے شادی بیاہ کی تقریبات اور رسومات و لوازمات کے طومار کے ’’اِصر‘‘ اور ’’اَغلال‘‘کے خلاف جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں.

oo اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ oo بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ