اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَنُؤْمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَ ھَادِیَ لَہٗ وَنَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰــہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَنَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ.
اَمَّا بَعْدُ : فَاِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کَتَابُ اللّٰہِ وَخَیْرَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَا تُھَا وَکُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٍ وَّکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٍ وَّکُلَّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ. اَمَّا بَعْدُ! 
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا ﴿۱﴾ 
(النساء) 
وَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ کَمَا وَرَدَ فِیْ سُوْرَۃِ آلِ عِمْرَانَ:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ 
وَقَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ کَمَا وَرَدَ فِیْ سُوْرَۃِ الْاَحْزَابِ :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۰﴾یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱
قَالَ النَّبِیُّ  : اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ 
وقَالَ  : فَمَنْ رَّغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ! 

وقَالَ  : اَعْلِنُوْا ھٰذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوْہُ فِی الْمَسَاجِدِ حضرا ت گرامی!یقینا آپ حضرات کو بہت سی مجالس نکاح میں شرکت کا موقع ملا ہوگا اور آپ کا مشاہدہ یہ ہو گا کہ بالعموم خطبۂ نکاح یا تو اس طرح پڑھا جاتا ہے کہ صرف دولہا اور آس پاس کے چند لوگ ہی اس کو سن پاتے ہیں ‘یا پھر نکاح کی مجلس مسجد میں منعقد ہو اور لاؤڈ سپیکر پر خطبہ پڑھا جائے تو اس طرح خطبۂ نکاح کو تمام ہی شرکاء سن لیتے ہیں اور ان کو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس خطبۂ نکاح میں قرآن حکیم کی چند آیات اور چند احادیث پڑھی گئی ہیں.

لیکن چونکہ بدقسمتی سے عموماً شرکاء کی کثیر تعداد عربی سے نابلد ہوتی ہے‘ لہذا ان لوگوں کو اس بات کا کوئی شعور حاصل نہیں ہوتا کہ ان آیات کا مفہوم و مطلب کیا ہے اور نبی اکرم نے ان آیات کا خطبۂ نکاح کے لیے کس عظیم مصلحت و افادیت کے پیش نظر انتخاب فرمایا ہے اور نہ ہی ان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کا ہماری معاشرتی زندگی سے کیا ربط و تعلق ہے اور خاص طور پر ان آیات میں اس دولہا کے لیے کیا نصائح‘ ہدایات‘ تذکیر اور رہنمائی موجود ہے جو اس نکاح کے ذریعے عائلی زندگی میں قدم رکھ کر ایک نئے خاندان کے وجود میں آنے کی بنیاد بن رہا ہوتا ہے.

اس طرزِعمل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خطبۂ نکاح کی جو اصل غایت ہے‘ وہ کسی طرح بھی پوری نہیں ہوتی. سیرتِ مطہرہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم کا طریقہ یہ تھا کہ جہاں کہیں بھی مسلمان جمع ہوتے تھے ‘اور یہ جمع ہونا آپ کو معلوم ہے کہ ہماری معاشرتی زندگی میں بالعموم خوشی کے مواقع پر بھی ہوتا ہے اور غمی کے مواقع پر بھی‘ تو آنحضور کا معمول یہ تھا کہ ایسے اجتماعات میں موقع و محل کی مناسبت سے آپؐ عموماً کچھ تذکیر و نصیحت فرماتے تھے تاکہ دین کے اہم امور کی یاددہانی ہو جایا کرے.