خطبۂ جمعہ کی حکمت

شاید آپ کو معلوم ہو کہ خطبۂ جمعہ کی غرض و غایت بھی یہی تذکیر (یاددہانی) ہے. مسلم شریف میں روایت آتی ہے کہ نبی اکرم خطبۂ جمعہ میں قرآن حکیم کی قراء ت اورلوگوں کو تذکیر فرمایا کرتے تھے: یَقْرَءُ الْقُرْآنَ وَیُذَکِّرُ النَّاسَ. اسی طرح خطبۂ نکاح کی بھی اصل غرض و غایت تذکیر و نصیحت اور موعظتِ حسنہ ہے‘ ورنہ جہاں تک قانون کا تعلق ہے عروس کی رضامندی اس کے وکیل کے ذریعے معلوم ہونے پر گواہوں کے سامنے اعلانِ عام کے ذریعے نکاح خواں ایجاب اور دولہا قبول کرتا ہے جو نکاح کے لیے کفایت کرتا ہے.

انسانی نفسیات کا یہ پہلو بھی ہے کہ بہت سی باتیں انسان کو پہلے سے معلوم ہوتی ہیں اور وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ میں ان باتوں کو مانتا ہوں‘ تسلیم کرتا ہوں‘ لیکن ان میں سے اکثر ضروری باتیں اس کے شعور میں تازہ نہیں رہتیں. تذکیر کا مقصد دراصل ان ہی حقائق کو یاد دلانا اور ان کو اجاگر کرنا اور ذہن و شعور میں پھر تازہ کرنا ہوتا ہے. خطبۂ جمعہ چونکہ عربی زبان میں پڑھا جاتا ہے اور سامعین عربی زبان سے ناواقف ہوتے ہیں‘ لہذا خطبۂ جمعہ کی اصل غرض و غایت پوری نہیں ہوتی‘ زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم والا معاملہ درپیش ہوتا ہے .تو اسی وجہ سے اصل خطبہ سے قبل وعظ کا سلسلہ شروع کیا گیا اور ایک مسلک کی طرف سے خطبۂ جمعہ مقامی زبان میں دینے کا طریقہ اختیار کیا گیا. یہ طریقہ دراصل اس اصول کے تحت اختیار کیا گیا کہ : 
مَالَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ یعنی اگر کوئی چیز بتمام و کمال نہ مل سکے تو اس کو بالکل چھوڑ بھی نہیں دینا چاہیے بلکہ جو کچھ حاصل کیا جا سکے وہ ضرور حاصل کرلینا چاہیے.