پس خطبۂ نکاح بھی درحقیقت تذکیر کے لیے ہے. یہ تذکیر خاص طور پر اس شخص (یعنی دولہا) کے لیے بھی ہے جو اپنی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز کر رہا ہوتا ہے اور بہت سی ذمہ داریوں کا بوجھ اس کے کاندھوں پر آ رہا ہوتا ہے. ہمارے معاشرے میں ایک خاندان کا اضافہ ہو رہا ہوتا ہے. معاشرے کے لیے خاندان کا ادارہ بمنزلہ ایک اکائی ہوتا ہے. معاشرہ دراصل نام ہی بہت سے خاندانوں کے مجموعے کا ہے. اگر خاندان کا ادارہ درست اور مستحکم بنیادوں پر استوار ہو‘ اور اس کو اس نہج پر منظم کیا جائے جو ہمارے دین میں مطلوب ہے تو اس طرح لامحالہ معاشرہ صالح خطوط پر پروان چڑھے گا. خاندان کی جو کیفیات ہوتی ہیں درحقیقت ان ہی کا عکس معاشرے پر پڑتا ہے. کسی معاشرے میں صالح خاندانوں کی اکثریت ہو گی تو معاشرہ بھی مجموعی طور پر اعلیٰ اقدار اور صالحیت کا حامل ہو گا. اس کے برعکس اگر خاندانوں کی اکثریت میں بگاڑ ہو‘ وہ صحیح خطوط پر استوار نہ ہوں تو لازماً مجموعی طور پر معاشرہ بھی بگڑا ہوا معاشرہ ہو گا. لیکن چونکہ دولہا جس کو تذکیر و نصیحت اصلاً مقصود ہے‘ عربی سے نابلد اور شرکاء بھی جو اس تذکیر سے مستفید ہونے چاہئیں‘ عربی سے ناواقف ہوتے ہیں‘ چنانچہ نتیجہ یہ ہے کہ خطبۂ نکاح بھی محض ایک ’’رسم‘‘ بن کر رہ گیا ہے. (؏ ’’رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی ؓنہ رہی!‘‘)