تھے. اس لیے کہ اصل تذکیر کا ذریعہ قرآن مجید ہی ہے.
سورۃقٓ کا اختتام ہی تذکیر بالقرآن کے تاکیدی حکم پر ہوتا ہے. وہاں فرمایا : فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿٪۴۵﴾ ’’پس (اے نبیؐ !) تذکیر کرائیے قرآن کے ذریعے سے اس کو جو میری پکڑ سے ڈرتا ہو!‘‘
ابھی میں نے آپ کو خطبہ ٔجمعہ کے متعلق حدیث سنائی تھی کہ اس میں نبی اکرمﷺ قرآن حکیم کی قراء ت اور لوگوں کو تذکیر فرمایا کرتے تھے. سیرتِ مطہرہ میں نبی اکرمﷺ کا یہی معمول خطبۂ نکاح کے سلسلہ میں بھی نظر آتا ہے. چنانچہ میں نے خطبۂ مسنونہ کے بعد قرآن کی جن آیات کی قراء ت کی ہے‘ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضورﷺ نکاح میں عموماً ان ہی آیات کی قراء ت کا اہتمام فرمایا کرتے تھے. سرسری طور پر غور کرنے سے ہی ان آیات کی قراء ت کی حکمتیں سمجھ میں آ جاتی ہیں. اگر معاملہ یہ ہوتا کہ حصول برکت کے لیے چند آیات پڑھ لی جائیں تو اس اعتبار سے سورۃ الفاتحہ ہونی چاہیے جو اُمّ القرآن بلکہ بجائے خود ’’قرآن عظیم‘‘ ہے‘ یا سورۃ الاخلاص ہونی چاہیے جس کو نبی اکرمﷺ نے ثلث قرآن کے مساوی قرار دیا ہے. لیکن معاملہ یہ نہیں ہے.
اس موقع پر قرآن مجید کی آیات کی قراء ت محض حصولِ برکت یا روایت کے طور پر نہیں ہے‘ بلکہ موقع و محل کی مناسبت سے نبی اکرمﷺ خطبۂ نکاح میں عموماً سورۃ النساء کی پہلی آیت‘ سورۃ آل عمران کی آیت ۱۰۲ اور سورۃ الاحزاب کی آیات ۷۰‘ ۷۱ کی قراء ت فرمایا کرتے تھے. مجلس نکاح میں ان آیات کی قراء ت سے دراصل وہ تذکیر و نصیحت مقصود ہے جو اس شخص کے لیے نشانِ منزل اور موجب رہنمائی ہے جو زندگی کی ایک نئی شاہراہ پر قدم رکھ رہا ہوتا ہے. لہذا ضروری ہے کہ مجلس نکاح میں صرف خطبۂ نکاح پڑھنے پر اکتفا نہ کیا جائے‘ بلکہ ان احکام اور حکمتوں کو بھی بیان کیا جائے جو قرآن حکیم کی ان آیات میں مضمر ہیں اور جن کی بطور تذکیر نبی اکرمﷺ قراء ت فرمایا کرتے تھے. میں آگے جب ان آیات کی مختصر طور پر کچھ شرح کروں گا تو‘ اِن شاء اللہ ‘نکاح کے موقع پر ان آیات کی قراء ت کی حکمتیں آپ کے سامنے آ جائیں گی.