ان آیات کی تشریح و تفہیم سے قبل میں چاہتا ہوں کہ آپ کی توجہ اس اہم بات کی طرف مبذول کراؤں کہ ان آیات میں لفظ تقویٰ بہ تکرار آیا ہے. لفظ تقویٰ ہمارے دین کی اہم ترین اصطلاحات میں سے ایک ہے .اصطلاحات کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ کسی زبان کی اصطلاح کا ترجمہ و مفہوم کسی دوسری زبان میں ایک لفظ میں ادا کرنا ممکن نہیں ہوتا. قرآن مجید کے اردو تراجم میں تقویٰ کا ترجمہ عام طور پر ’’پرہیزگاری‘ ڈرنا اور بچنا‘‘ کیا جاتا ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی لفظ سے بھی ان معانی و مفاہیم کے بیان کا حق ادا نہیں ہوتا‘ جو تقویٰ کی دینی اصطلاح میں شامل ہیں. اس لفظ کی شرح حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بڑی وضاحت و صراحت اور بہت ہی قابل فہم انداز میں فرمائی ہے. اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک مجلس میں امیرالمؤمنین فاروقِ اعظم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لفظ ’’تقویٰ‘‘ کا مطلب دریافت فرمایا. اس کے جواب میں حضرت ابی بن کعبؓ نے یہ تشریح بیان کی کہ :

’’یا امیرالمو ٔمنین! جب کسی شخص کو جنگل کی ایسی پگڈنڈی سے گزرنے کا اتفاق ہو جس کے دونوں اطراف میں خاردار جھاڑیاں ہوں تو ایسی پگڈنڈی پر گزرتے وقت وہ شخص لامحالہ اپنے کپڑوں کو ہرطرف سے سمیٹ کر اس راستے کو یوں طے کرنے کی 
کوشش کرتا ہے کہ اس کے کپڑے جھاڑیوںاور ان کے کانٹوں سے الجھنے نہ پائیں. اسی احتیاطی رویے کو عربی میں ’’تقویٰ‘‘ کہتے ہیں.‘‘ (اَوْ کَمَا قَالَ)

فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس تشریح و مفہوم کی تصویب و توثیق فرمائی اور حضرت ابی ابن کعبؓ کو داد بھی دی. حقیقت یہ ہے کہ ہماری دُنیوی زندگی کی پگڈنڈی پر ہمارے دائیں اور بائیں یعنی دونوں اطراف میں شہوات‘ لذات اور معاصی کی خاردار جھاڑیاں موجود ہیں. اثم وعدو ان کی ترغیبات و تحریصات کا کوئی شمار نہیں . ایک بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کے غضب اور سزا کے خوف اور اس کے انعام‘ نگاہِ کرم‘ نظر ترحم اور جزا کے شوق سے نافرمانی کے ہر عمل سے بچتا ہوا اور دین کے تقاضوں اور مطالبوں کو ادا کرتا ہوا جب زندگی گزارتا ہے تو اس رویے اور طرزِعمل کا نام ’’تقویٰ‘‘ ہے اور اسی کو اختیار کرنے کی قرآن مجید میں دعوت و تاکید کی گئی ہے. خطبۂ نکاح کے موقع پر جو آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں اسی تقویٰ کو اختیار کرنے کی ہدایت و حکم کو مرکزی مقام حاصل ہے.